لاہور: دیسی کوچز اپنوں کا دل بھی نہ جیت سکے جب کہ ثقلین مشتاق کا قومی ٹیم کے ساتھ کامیاب سفر رسمی تعریفوں کے ساتھ ختم ہوگا۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ سے قبل ہیڈ کوچ مصباح الحق اور بولنگ کوچ وقار یونس نے نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے استعفٰی دے دیا تو عبوری طور پر یہ ذمہ داری ثقلین مشتاق کے سپرد کردی گئی،میگا ایونٹ میں سابق اسپنر کی معاونت کیلیے میتھیو ہیڈن کو بیٹنگ اور ورنون فلینڈر کو بولنگ کنسلٹنٹ مقرر کیا گیا۔
گرین شرٹس نے تاریخ میں پہلی بار کسی ورلڈکپ میں بھارت کو مات دی، اس کے بعد بھی مسلسل چاروں میچز جیت کر سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی جہاں آسٹریلیا نے شکست دی،میتھیو ویڈ نے آخر میں ماردھاڑ سے پاکستان کو یقینی فتح سے محروم کیا مگر پورے ایونٹ میں فائٹنگ اسپرٹ نظر آئی، بنگلادیش کی مشکل کنڈیشنز میں دونوں غیر ملکی کنسلٹنٹ میسر نہیں تھے۔
قومی ٹیم نے ٹی ٹوئنٹی کے بعد ٹیسٹ سیریز میں بھی کلین سوئپ کیا،ان فتوحات کے سفر میں پی سی بی کی جانب سے جاری کردہ ویڈیوز میں کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی میں ثقلین مشتاق کا کردار بھی دکھایا اور سراہا گیا۔ چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ نے تسلیم کیا کہ سابق اسپنر نے کھلاڑیوں میں قومی جذبہ ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا ہے،اس کے بعد ہیڈ کوچ سمیت قومی ٹیم مینجمنٹ کیلیے اشتہارجاری کردیا گیا۔
نئے سال کے آغاز پر پی سی بی کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو پیغام میں رمیز راجہ نے کہاکہ قومی کرکٹ ٹیم کے کوچز کی تقرری پر کپتان بابر اعظم اور محمد رضوان کے ساتھ میری ثقلین مشتاق سے بھی بات ہوئی، عام رائے یہی ہے کہ ٹیم کے ساتھ غیرملکی کوچز کا تقرر ہونا چاہیے، میں خود اس حوالے سے کھلی سوچ رکھتا ہوں،میرا خیال ہے کہ بیرون ملک ٹورز میں مقامی کنڈیشنز کی سمجھ بوجھ رکھنے والے کوچز کی خدمات حاصل کرنا چاہیئں،دوسری جانب یہ بات بھی درست ہے کہ بابر اعظم خود بھی ابھی نئے کپتان ہیں،ان پر سارا بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا،اس لیے باقاعدہ کوچنگ اسٹاف بھی سپورٹ کیلیے ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ بنگلادیش میں سیریز کے دوران کوچز نہیں تھے،ہم نے کپتان کو قدموں پر کھڑا ہونے کا موقع دیا،ذمہ داری پڑنے پر ہی سیکھنے کا موقع ملا کہ کنڈیشنز کو سمجھتے ہوئے کارکردگی دکھاکر میچز کس طرح جیتے جا سکتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ورلڈکپ سے قبل نئے کوچز لانے سے ٹیم کا ماحول بدلا، کپتان کو بااختیار کرنے سے کارکردگی میں تسلسل آیا، قیادت کو حوصلہ دینے کی وجہ سے فائٹنگ اسپرٹ پیدا ہوئی، اعتماد دیے جانے پر ہی کھلاڑیوں کا ٹیلنٹ نکھر کر سامنے آیا۔
سابق کپتان نے کہا کہ گذشتہ سال پاکستان کی کارکردگی اچھی رہی،پلیئرز بہتر انداز میں کرکٹ کھیلتے نظر آئے مگر یہ ہنی مون پیریڈ ہے، اگر دنیا کی بہترین ٹیم بننا ہے تو انفرااسٹرکچر سمیت سسٹم میں بہتری کیلیے بہت کام کرنا ہوگا۔
رمیزراجہ نے کہا کہ کورونا کی غیرمعمولی صورتحال میں بھی ہم آسٹریلیا اور انگلینڈ کی ٹیموں کے دورئہ پاکستان کیلیے پْرامید ہیں، ٹیسٹ چیمپئن شپ پوائنٹس کیلیے ان کو کھیلنا ہی پڑے گا، نیوزی لینڈ کی ٹیم بھی واپس آ رہی ہے، سیریز ایسے وقت میں شیڈول کی گئی ہیں کہ ان ٹیموں کے بڑے کھلاڑی پاکستان آنے کیلیے دستیاب ہوں،گذشتہ سال 2ٹورز ختم ہونے کے بعد ان ٹیموں کا آنا انٹرنیشنل سطح پر ہمارے موقف کی فتح ہے،میدان میں میزبان ٹیم کا سخت امتحان ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کا شمار سرفہرست ٹیموں میں ہوتا ہے،انھیں ہوم گراؤنڈز پر بھی ہرانا آسان نہیں ہوگا،حالیہ فتوحات سے پْراعتماد ٹیم کو دیکھتے ہوئے میں پْرامید ہوں کہ کینگروز کو بھی دھر لیں گے،اصل ہدف تب حاصل ہوگا جب آسٹریلیا اور انگلینڈ کو ان کی پچز پر ہرائیں گے،ڈراپ ان پچز لانے کا مقصد یہی ہے کہ وہاں کھیلنے جائیں تو باؤنس کی وجہ سے بولرز اور بیٹرز کو کوئی پریشانی نہ ہو۔