کالم

عوام برائے احتجاج اور میثاق پاکستان

احتجاج ملکی ترقی کےلئے ناگزیر ہیں یا مقاصد کچھ اوراگریوں کہا جائے تو شاید درست ہی ہو کہ اب اہل وطن کو پرامن ماحول سے چڑ اور سکون ہمیں کھانے کو دوڑتا ہے، قطع نظر اس کے کہ ہمارے جارحانہ رویوں بارے غیر ملکی سرمایہ کار، حکومتیں اور ادارے کیا سوچتے ہیں اور اس کے معیشت پر کیا اثرات، جماعتیں، کونسلیں اور تنظیمیں احتجاج پر احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔احتجاج ضروری اور مجبوری، ہاں اگر معیشت کے استحکام، بدعنوانی کے خاتمہ،اشرافیہ سے مراعات واپسی، 1990 سے لیکر آج تک لئے گئے قرضہ جات کی تفصیلات منظر عام پر لانے، آئی پی پیز سے ملک دشمن معائدات کرنے والوں کے خلاف، معاشرے کے مختلف طبقات میں بڑھتی انتہا پسندی، عوام اور سیاسی کارکنان کی بداخلاقیوں، سود کے خاتمہ، پرٹوکول کلچر اور ڈیڑھ لاکھ سرکاری گاڑیوں کے خلاف، معاشرے کو آئین، قانون، ضابطے اور اخلاقیات کا پابند بنانے، جاگیردارانہ و سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمہ، امن و امان کی بہتری کےلئے ہوکہ ایسے احتجاج کا حصہ بننا باعث فخر. مگر جو حصول اقتدار، توڑ پھوڑ، گھیراوجلاو، گالم گلوچ کےلئے ہو وہ مذموم اور باعث زحمت۔اگر یہ کہا جائے کہ ملک گزشتہ ایک عرصہ سے حالت احتجاج میں ہے، تو بے جا نہ ہو گااور یہاں سیاسی قائدین کی خوش قسمتی کہ انہیں ہر دور میں زندہ باد کہنے، قیادت کی نا اہلیوں، غلط فیصلوں اور پارٹی پر مفاد پرست عناصر کو مسلط اور وعدوں کے ایفا بارے پوچھنے کی سوچ سے عاری ہر وقت آمادہ بر احتجاج کچھ کارکنان بھی دستیاب۔اتنی مادر پدر آزادی دنیا کے مہذب تو دور غیر مہذب ممالک میں بھی نہیں۔جائز مطالبات کےلئے احتجاج درست مگر آداب احتجاج کے ساتھ۔دوسری طرف بھی حال یہ کہ جب تک مظاہرے پرتشدد نہ ہوں ذمہ داران کان دھرنے اور بات کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ایک طرف مظاہرین پوری حشر سامانیوں کے ساتھ آسمان سر پر اٹھا رکھے ہوتے ہیں تو حکومت وقت بھی ان سے نمٹنے کےلئے پوری طرح چوکس رہتی ہے ۔یہاں معاملہ ہی الٹ کہ پہلے دھونس، زور زبردستی اور بعد میں مذاکرات. یہ سوال کہ احتجاج کیوں ہوتے ہیں موضوع بحث نہیںبلکہ یہ کہ پارلیمانی نظام کے ہوتے ہوئے احتجاج پر احتجاج کیوں؟ کیا انکا پارلیمانی نظام پر اعتماد نہیں یا اس مقاصد کچھ اورپارلیمانی نظام لولا لنگڑا ہی سہی، میں بھی اگر سیاسی کارکنان نے پورا سال سڑکوں پر ہی رہنا ہے تو پھر احتجاج پسندوں کا اسمبلیوں سے مستعفی ہونا ہی بنتا ہے ۔ قوم کے سالانہ اربوں کھانے والے 11سو سے زائد اراکین اسمبلی اگر عوامی اضطراب، مسائل اور مشکلات کی آواز متعلقہ فورمز پر بلند نہیں کر سکتے اور ملک کا ہر طبقہ اگر پارلیمانی نظام کے ہوتے ہوئے بھی احتجاج پر مجبور ہے تو پھر پارلیمانی نظام سیاست کو لپیٹ ہی دینا چاہیے۔احتجاج حرام نہیں مگر ہو بھی تو کسی ڈھنگ کا۔اب تو احتجاج نام بن گیا ہے طوفان بدتمیزی کا اور بدتہذیبی کاکارکن تو کارکن قیادتیں کھلے عام اخلاقی اقدار پامال کر کے فخر محسوس کرتی ہیں۔یہ درست کہ جس طرح بچوں کی تربیت والدین کے ذمہ اسی طرح کارکنان کی قائدین کے ذمہ مگر بدقسمتی سے قیادتیں ہی بداخلاق اور بدتہذیب ہوں تو پھر !وہی دیکھنے سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے جو ہم دیکھ سن رہے ہیں ۔ موجودہ حالات دیکھ کر یہ کہنا بنتا ہے کہ جس طرح ن لیگ اور پی پی نے بدعنوانی و رشوت ستانی کو آرٹ کا درجہ دیا کہ وہ رشوت کک بیکس، منی لانڈرنگ جیسی بدعنوانیوں کو معمول کی کاروائی قرار دیکر نظر انداز کر دیتے ہیں اور کارکنان بھی اسے ضمیر پر بوجھ محسوس نہیں کرتے۔اسی طرح پی ٹی آئی نے اخلاقی غنڈہ گردی اور بدتہذیبی کو شعور کا نام دیکر اس میں شہرت پائی اور بہت کم عرصہ میں اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر جھوٹ اور بہتان کو آرٹ کا درجہ دیکر باقاعدہ اس میں سند حاصل کی۔یہ عادات انکے کارکنان کے دل و دماغ حتی کے روح میں یہ ایسے رچ بس چکیں کہ اب پڑھے لکھے اور دین دار لوگ بھی اس کا برا نہیں مناتے تو آپ ہی بتائیے کہ قوموں کی تباہی کو اور کیا چاہیے ۔ افسوس کہ ہم غیروں کے گولہ بارود سے حفاظت کا سامان کرتے رہے جبکہ ہمیں خبر ہی نہ ہوئی کہ مکار دشمن نے قوم کو تقسیم، انہیں فکری طور پر مفلوج اور نظریات پر پختگی کی بجائے شخصیات پرستی اور پھر باغیانہ روش پر لگا دیا اور ہمارے معاشرے میں انتہا پسندی، سیاسی دیشت گردی، نفرت اور بدتہذیبی کی سرنگیں لگا دیں کہ جو اب آئے روز پھٹتی ہیںمگر اس کا سارا ملبہ نءقیادت پر نہیں ڈالا جا سکتا اس کے ذمہ دار وہ تمام کردار بھی جو سال ہا سال سے مقتدر، اور ہمارا نظام تعلیم و ادارے کہ جنہوں نے آئین و قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے میں کوتاہی برتی۔اب اس کا حل کیا ہو سکتا ہے وہ بھی پیش خدمت، کہ ملک کو گرداب سے نکالنے کےلئے تمام سیاسی جماعتیں میثاق پاکستان کریں۔انتخابی مہم کے علاوہ سیاسی و مذہبی مظاہروں پر پابندی اور جماعتیں اپنے معاملات اسمبلیوں میں طے کریں، دیگر طبقات کو اظہار رائے اور اپنے مسائل ارباب اختیار تک پہنچانے کےلئے حکومت ہر شہر میں احتجاج پارک مختص کرے۔مذہبی طبقات بالخصوص اس میثاق کو حتمی شکل دلانے میں کردار ادا کر سکتے ہیںکہ عوام کو آئے روز کی پریشانی و ذہنی کرب سے نجات اور ملک میں سرمایہ کاری کےلئے ساز گار ماحول دستیاب ہو ۔اس پر مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر سخت قانون سازی اور قانون شکنی کرنے والوں کو نشان عبرت بنایا جائے مگر اللہ کرے جیتے جاگتے جو خواب میں دیکھ رہا ہوں اس کی تعبیر بھی جیتے جی ہی ممکن ہو سکے۔اختتام درد بھرے ان اشعار کے ساتھ
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارض وطن
جو تیرے عارض بے رنگ کو گلنار کریں
کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہو گا
کتنے آنسو تیرے صحراں کا گلزار کریں
تیرے ایوانوں میں پرزے ہوئے پیماں کتنے
کتنے وعدے جو نہ آسودہ اقرار ہوئے
کتنی آنکھوں کو نظر کھا گئی بدخواہوں کی
خواب کتنے تیری راہوں میں سنسار ہوئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے