کالم

غزہ کی تباہ کن صورتحال کے اثرات دور رس ہونگے

riaz chu

نگران وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑنے فلسطینی صدر محمود عباس سے ٹیلی فونک گفتگو میںکہا کہ غزہ میں ایک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، اس جاری تباہ کن صورتحال کے اثرات دوررس ہوں گے۔انہوں نے اس امر پر زور دیا ہے کہ عالمی برادری کو فوری طورپر اسرائیل کے غزہ میں قتل عام کو روکنے میں اپنا موثر کردار ادا کرنا چاہئے اور اسرائیلی قابض فوج کی جانب سے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسرائیلی بربریت کے متاثرین تک طبی و دیگر امداد پہنچ سکے۔پاکستان سے الخدمت فاو¿نڈیشن نے بھی اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کیلئے امداد کی کھیپ روانہ کی جو مصر پہنچ چکی ہے۔ وزیرِ اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ کو فوری طور پر ٹھوس اور موثر اقدامات کرکے اس صورتحال کو ٹھیک کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ انصاف، انسانیت اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری یقینی بنائی جا سکے۔غزہ میں 35 روز سے جاری اسرائیل کی وحشیا نہ کا ر ر و ائیوں کے دوران شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 11 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ شہید افراد میں 4506 بچے، 3027 خواتین اور 678 معمر افراد بھی شامل ہیں۔اس عرصے میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں 27 ہزار 490 فلسطینی زخمی ہوئے۔ 2700 افراد بشمول 1500 بچے اب بھی عمارات کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ اس وقت جبکہ غزہ میں اسرائیلی فوج نے مظلوم فلسطینیوں پر بے رحم جنگ مسلط کر رکھی ہے جس میں امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی سمیت تمام الحادی قوتیں اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہیں اور فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے اسرائیل کو ہر قسم کی جنگی‘ حربی اور مالی معاونت فراہم کر رہی ہیں اور مسلم دنیا فلسطینی مسلمانوں کیخلاف ان ننگِ انسانیت جرائم پر محض خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ غزہ میں طبی نظام کے خلاف اسرائیلی جارحیت جاری ہے اور 9 نومبر کی شب سے اب تک غزہ کے سب سے بڑے الشفا اسپتال پر کم از کم 5 بار بمباری کی گئی ہے۔بمباری کے نتیجے میں کم از کم 13 افراد شہید جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔ اسرائیل کی جانب سے 7 اکتوبر سے طبی مراکز پر اب تک 270 سے زائد حملے کیے جا چکے ہیں۔ان حملوں کے باعث 35 میں سے 21 اسپتال بند ہو چکے ہیں جبکہ 72 میں سے 51 طبی مراکز بھی کام نہیں کر رہے۔حملوں سے 57 ایمبولینسوں کو نقصان پہنچا ہے جن میں سے 53 مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔ اسرائیلی ٹینکوں نے غزہ کے 4 ہسپتالوں کو چاروں سمتوں سے گھیر لیا ہے۔النصر اسپتال، گورنمنٹ آئیز اسپتال، مینٹل ہیلت اسپتال اور al-Rantisi ہسپتال اسرائیلی فوج کے گھیرے میں ہیں۔ ہزاروں مریض، طبی عملہ اور بے گھر افراد ان اسپتالوں کے اندر محصور ہیں اور انہیں خوراک یا پانی تک رسائی حاصل نہیں۔ امن و استحکام سے کھیلنا اور کھلواڑ کرنا ہی الحادی قوتوں کی سرشت میں شامل ہے جس کیلئے اسلام دشمن ہنود و یہود و نصاریٰ شیطانی اتحاد ثلاثہ کی عملی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔ اس کا موقع انہیں مسلم دنیا کی بے عملی اور ناچاقی و نااتفاقی کے باعث ہی مل رہا ہے۔ اگر مسلم دنیا اسلام کی نشاة ثانیہ کے احیاءکے جذبے سے سرشار ہو کر قوت ایمانی کا عملی اظہار کرے اور ایک دوسرے کے ساتھ فروعی اختلافات اور ذاتی مفادات میں الجھنے کے بجائے مسلم برادرہڈ کی بنیاد مستحکم بنائے تو محض چند کروڑ صیہونیوں کوارض فلسطین پر اپنا تسلط جمانے اور فلسطینیوں کا اپنے ہی وطن میں عرصہ چیات تنگ کرنے کا موقع کیوں ملے۔حد تو یہ ہے کہ آج غزہ میں عملاً فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے جہاں اسرائیلی بے رحم فضائی اور زمینی حملوں میں روزانہ اڑھائی تین سو انسانی جسموں کے پرخچے اڑ رہے ہیں‘ انسانی خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں‘ معصوم بچوں کے لاشے جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔ پوری دنیا میں اسرائیلی مظالم پر آہ و بکاہ ہو رہی ہے‘ جنگ بندی کے تقاضے کئے جارہے ہیں‘ اقوام متحدہ کو جھنجوڑ کر جگانے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر امریکہ اور دوسری الحادی قوتیں نہ صرف اسرائیلی ہاتھ روکنے پر آمادہ نہیں بلکہ فلسطینیوں پر مزید مظالم کیلئے اسے ہر قسم کا جنگی سازوسامان بھی فراہم کر رہی ہیں۔ یقیناً الحادی قوتوں کی اسی شہ پر اسرائیلی وزیر دفاع نے فلسطینیوں پر ایٹم بم چلانے کی دھمکی بھی دی ہے جو اسرائیل کے پاس ایٹم بم کی موجودگی کا بھی ثبوت ہے مگر ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کی پاداش میں امریکہ نے جس طرح پاکستان پر اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی اقتصادی پابندیاں عائد کرائیں‘ بھارت اور اسرائیل کیلئے ایسی پابندیوں کا کبھی سوچا بھی نہیں گیا۔ اس سے بادی النظر میں یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ الحادی قوتوں کو مسلم دنیا کی کمزوریوں کا مکمل ادراک ہے اور اسی بنیاد پر امت مسلمہ کو مزید کمزور کرکے اسے ایک ایک کرکے ختم کرنے کی سازشیں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہیں۔شنید ہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاملے پر معاہدہ ہوگیا ہے۔ دونوں فریقین کے درمیان کئی دن کے مذاکرات کے بعد یہ معاہدہ ہوا۔دونوں فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی خواتین اوربچوں کی رہائی کے بدلے حماس کی جانب سے 100 یرغمالی خواتین اوربچوں کورہا کیا جائیگا۔ انسانی بنیادوں پر طے پانے والے اس معاہدے کے حوالے سے کئی ہفتوں سے بات چیت ہو رہی تھی۔قطر کی جانب سے کئی ہفتوں سے دونوں فریقین کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاہد ے کےلئے کوششیں کی جا رہی تھیں۔خیال رہے کہ حماس کی قید میں 241 سے زائد اسرائیلی موجود ہیں جن میں سے اب تک 4 یرغمالیوں کو رہا کیا گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri