کالم

لاپتہ افراد ۔اہم مثبت پیشرفت

اس امر میں شائد ہی کسی کو شبہ ہو کہ لاپتہ افراد کا معاملہ ایک عالمی رجحان کی صورت اختیار کر چکا ہے اور اس ضمن میں اعدادو شمار کی بابت انسانی حقوق کے دعویدار اکثر حلقے حقائق کو خطرناک تک حد توڑ مڑور کر پیش کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں سچ اور جھوٹ میں تمیز لگ بھگ ختم ہو کر رہ گئی ہے اور یہ سلسلہ ہر آنے والے دن کے ساتھ مزید گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔ البتہ یہ امر انتہائی خوش آئند ہے کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے حکومت پاکستان کا حالیہ فیصلہ قابلِ تحسین ہے۔ ریاست کی جانب سے تاریخی فیصلہ لیا گیا ہے کہ پانچ سال سے زیادہ عرصے والے ”گمشدہ افراد” کے خاندانوں کے دکھ میں شامل ہوا جائےگا۔ لاپتہ افراد کے خاندان کی معاشی مشکلات کو دور کرنے کےلئے گرانٹ کے طور پر 50 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔ اس تناظر میں ماہرین نے کہا ہے کہ حکومت کے اس فیصلے کو ریاست یا اس کے اداروں کی طرف سے کسی بھی ذمہ داری کی قبولیت کے طور پر نہیں بلکہ اپنے شہریوں کی فلاح کیلئے مادرانہ رویہ کے طور پر لیا جانا چاہیے ۔ ریاست”گمشدہ افراد” کی ذمہ دار نہیں لیکن متاثرہ خاندانوں کے دکھ میں برابر کی شریک ہے۔ قابل ذکر ہے کہ لاپتہ افراد کا معاملہ کابینہ کے اجلاس میں زیر بحث آیاجس میں متعدد کیسز کو انفورسڈ ڈسپیئرنس انکوائری کمیشن (CIED) کے ذریعے حل کیا گیا ہے۔ اسی تناظر میں حکومت کی طرف سے ”National Consensus & Legal Resolution (NCLR) of Missing Persons” کا احسن اقدام شروع کیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت مسنگ پرسنز کے مسئلے کو حل کرنے کےلئے قانونی اور حفاظتی اقدامات کو مزید مضبوط کر رہی ہے۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے غیرجانبدار حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ دور حاضر میں سوشل میڈیا یقینا ایک بڑی اور موثر قوت کے طور پر ابھر چکا ہے مگر یہ امر بھی کسی ستم ظریفی سے کم نہیں کہ بالمعموم سوشل میڈیا کے ذریعے حقائق کو مسخ کر کے پیش کرنا ایک عالمی رجحان ہے۔اسی ضمن میں یہ امر کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ بھارت اور چند دیگر قوتیں ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہی ہیں اور اس حوالے سے بلوچستان کے خود ساختہ نیشنَلِسٹ حلقوں نے شاید قسم کھا رکھی ہے کہ وہ پاکستان کی بابت بہر صورت اپنے مکروہ ایجنڈے پرعمل پیرا ہیں اور اس ضمن میں تن من دھن سے مصروف عمل ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان کے ہی چند طبقات بھی دانستہ طور پر وطن عزیز کےخلاف دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ ایسے میں دعا ہی کی جانی چاہیے کہ ملک و ملت کے تمام حقیقی بہی خواہ اس رجحان کی حوصلہ شکنی میں مثبت کردار ادا کریں گے۔ اسی تناظر میں بلوچستان کے حوالے سے پراپیگنڈے کی نئی لہر گذشتہ چند مہینوں سے جاری ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی اسی سلسلے کو پھیلایا جا رہا ہے۔حالانکہ اس امر سے کون آگاہ نہیں تمام عالمی این جی اوز، اداروں اور ذرائع ابلاغ کو بلوچستان میں زمینی حقائق کی مانیٹرنگ اور رپورٹنگ کی کھلی چھوٹ ہے، لیکن اس سب کے باوجود جب یہ حلقے من چاہے نتائج حاصل نہیں کر پاتے تو بے بنیاد پراپیگنڈے کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں کبھی جبری گمشدگیوں کی بات کی جاتی ہے تو کبھی لاپتہ افراد کی حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ لاپتہ افراد کا معاملہ ایک عالمی مسئلے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس بات کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے کہ اس حوالے سے ایسے اعداد و شمار رپورٹ کئے جاتے ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں، نہ ہی ان اعداد و شمار کی بنیاد میں کوئی ٹھوس تحقیق موجود ہوتی ہے۔ جب چند عالمی اداروں کے ذریعے ان اعداد و شمار کا راگ الاپا جاتا ہے تو وطن عزیز کے چند سادہ لو حلقے بھی اس پر یقین کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور خود مذمتی کا سلسلہ نئی شدت کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے۔ البتہ یہ امر انتہائی حوصلہ افزا ہے کہ بلوچستان کے عوام میں آگہی اور شعور کا احساس بیدار ہو رہا ہے اور وہ افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنےوالے دیگر اداروں کے ساتھ مل کر جذبہ حب الوطنی سے سرشار دشمن کی ان سازشوں کو مسلسل ناکام بنا رہے ہیںمگر ان دنوں بلاشبہ ملک کو معاشی اور سیاسی مسائل کا سامنا ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ ”سی پیک“ کیخلاف جاری یہ بھارتی سازشیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی۔ اس حوالے سے مبصرین نے توقع ظاہر کی ہے کہ عالمی برادری اپنی انسانی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے تعمیری راہ اپنائے گی۔ یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان کی جری افواج نے بیتے چند برسوں میں دہشتگردی کے خاتمے کے حوالے جو شبانہ روز قربانیاں دیں، ان کا معترف ہر ذی شعور ہے۔ اس بدیہی حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ 7000 سے زائد افسر و جوان اپنی جانیں وطن کی حفاظت کےلئے نثار کر چکے ہیں اور ان کے ساتھ لگ بھگ 65000 سویلین پاکستانی شہری لقمہ اجل بنے۔ ایسے میں ہونا یہ چاہیے تھا کہ پوری عالمی برادری اس امر کا اعتراف کرتی اور وطن عزیز کی قربانیوں کو خاطر خواہ ڈھنگ سے سراہا جاتا مگر عملاً اس کے الٹ ہو رہا ہے اور الٹا پاکستان کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ چند عالمی قوتوں نے پاکستان کے حوالے سے اب بھی ”ڈو مور“ کی گردان کو اپنا د±م چھلا بنا رکھا ہے اور اٹھتے بیٹھتے اسی کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ ”گلزار امام“ ”کلبھوشن یادو“ جیسے عالمی دہشتگردوں کی گرفتاری کے بعد بھی اگر یہ طبقات اپنی پارسائی کے دعوے سے باز نہ آئیں تو اسے جنوبی ایشیائکی بد قسمتی کے علاوہ بھلا دوسرا نام کیا دیا جا سکتا ہے اور پھر جس طرح افغانستان میں ہونےوالی دہشتگردی کو جس انداز میں پاکستان کے سر م±نڈھنے کی ناپاک جسارت کی جا رہی ہے اس کی تو مذمت کرنے کےلئے بھی الفاظ ڈھونڈ پانا خاصا دل گردے کا کام ہے۔ مگر آفرین ہے بھارتی حکمرانوں اورچند بین الاقوامی طاقتوں پر کہ اپنی شرانگیزیوں پر بجائے نادم ہونے کے وہ اپنی چالبازیوں سے باز آنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ دوسری جانب نہتے کشمیریوں پر ہونےوالے مظالم کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ اسی تناظر میں پاکستان کے طول و عرض میں 5اگست کو یوم استحصال کشمیر کے منایا جا رہا ہے۔ مگر عالمی برادری کا ضمیر ہے کہ جاگنے کےلئے تیار نہیں۔ ایسے میں امید کی جانی چاہیے کہ اس ضمن میں عالمی برادری اپنی وقتی مصلحتوں کو خیرباد کہہ کر اپنا انسانی فریضہ نبھائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے