کالم

محسن نقوی تاریخ کا روشن ستارہ ہے

قارئین کرام اس وقت ملک میں آئے روز کوئی نہ کوئی واقعات رونما ہورہا ہے اور نئے نئے بیانات سننے کو مل رہے ہیں سابق وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا ایک بیان دیکھنے کو ملا جس میں رانا ثنا اللہ خان کا کہنا تھا کے محسن نقوی وزیر اعظم بھی بن سکتے تھے یہ اس بیان کا میں نے بار بار جائزہ لیا مگر رانا ثنا اللہ کا یہ بیان مجھے سچا ہی لگا گزشتہ ایک سال میں جو واقعات رونما ہوئے ہیں لگتا کچھ ایسا ہی تھا کے محسن نقوی کو شائد کسی نے آفر دی ہو کے وزیر اعظم بن جائیں لیکن محسن نقوی نے انکار کردیا ہو خیر آگے بڑھتے ہیں ملکی تاریخ کی سب سے لمبی نگران حکومت کے دوران جو کارنامے محسن سپیڈ نے سر انجام دیے ہیں شائد ہی ایک سال میں کسی نے اتنے کارنامے سرانجام دیے ہوں۔ بطور نگران وزیر اعلی محسن نقوی کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو فلاح عامہ کے سینکڑوں منصوبے ایسے ہیں جو گزشتہ حکومتوں میں مکمل نہ ہوئے تھے اور منصوبے ٹھپ پڑے تھے محسن نقوی کو کچھ حلقہ اور افراد تگڑا ترین وزیر اعلی کہتے رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کے محسن نقوی کے پاس کچھ ایسا ضرور تھا کے مختلف دوروں میں محسن نقوی کے منہ سے نکلی ہوئی بات پر اگلے دن عمل درآمد ہوجاتا تھا پنجاب کی بیورو کریسی پولیس ہر محکمہ محسن نقوی کی ہدایات پر سو فیصد عمل کر دیتا تھا بطور وزیر داخلہ ابھی تک محسن سپیڈ کی وہ کارکردگی نظر نہیں آرہی جو کے بطور وزیر اعلی تھی میرے ذاتی خیال میں محسن نقوی کے کام کچھ قوتوں کی جانب سے ہوسکتا ہے رکاوٹیں بھی ڈالی جارہی ہو پھر وفاق کی کمیٹیوں میں محسن نقوی کو ڈالنا پھر نکالنا جنوری 2023میں پنجاب کے نگران وزیراعلی بننے سے قبل بھی محسن نقوی کوئی گمنام شخصیت تو نہیں تھے لیکن اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنے بااثر ہیں کہ جو منصب یا عہدہ چاہیں حاصل کر سکیں۔ خیر اندازے غلط ثابت ہونے اور غلط فہمیاں دور ہونے میں وقت تھوڑا ہی لگتا ہے، محض لگ بھگ ایک سال بعد اب پتہ لگ گیا ہے کہ یہ ان کی مہربانی ہے کہ انہوں نے صرف ملک کے وزیر داخلہ بننے پر اکتفا کیا۔جب 8 فرروی کے انتخابات ہونا تھے تو بظاہر دور دور تک ایسا کوئی تذکرہ نہیں تھا کہ پنجاب میں نگران حکومت کے خاتمے کے بعد محسن نقوی مرکز میں کابینہ کے ایک اہم اور بااختیار وزیر بن جائیں گے لیکن اب وہ ڈرائیونگ سیٹ پر ہیں۔وفاق میں اس وقت برسراقتدار جماعت مسلم لیگ(ن)کے ایک سینیئر رہنما رانا ثنا اللہ نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ ان(محسن نقوی)کی مہربانی ہے کہ وہ وزیراعظم نہیں بننا چاہتے، انہوں نے وزیر داخلہ پر ہی اکتفا کیا ہوا ہے۔رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ان لوگوں کو نہ تو چھوٹا سمجھا جائے اور نہ ہی ان کو طیش دلائی جائے اور یہ سمجھا جائے کہ یہ نظام کےلئے کتنے اہم ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے اپنے گزشتہ کالم میں کی تھیں کے محسن نقوی سسٹم کا ہمشہ حصہ رہے گئے محسن نقوی پاکستان کرکٹ بورڈ کے بلامقابلہ چیئرمین منتخب ہوئے محسن نقوی کے پاس اس وقت ناصرف طاقتور وزارت داخلہ کا قلمدان ہے بلکہ وہ بیک وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بھی ہیں اور 2 اپریل ہی کو وہ ملک کے ایوان بالا (سینیٹ)کے رکن بھی باآسانی منتخب ہو گئے اور وہ بھی آزاد حیثیت میں۔ انہوں نے کسی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کی لیکن سینیٹر بننے کےلئے اس وقت اقتدار میں شامل بڑی جماعتوں کی حمایت انہیں حاصل رہی اور انہیں مطلوبہ ووٹ مل گئے۔ تاہم ان اور فیصل واوڈا کے سینٹ میں آنے سے بہت سے تجربہ کار اور سینیئر سیاستدان ایوان بالا سے باہر رہ گئے ہیں ۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے پر اور بھی کئی شخصیات طاقتور بن کر ابھری ہیں ان میں سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا بھی شامل ہیں۔ ان دونوں نے آزاد حیثیت میں سینیٹ انتخابات میں حصہ لیا اور ہنسی خوشی انہیں مختلف سیاسی جماعتوں نے ووٹ دے دیے۔جب حالات ایسے ہوں تو یہ ضروری نہیں لوگوں کو عہدوں کےلئے جدوجہد یا کوشش کرنی پڑے بلکہ منصب خود ایسی شخصیات کی تلاش میں ہوتے ہیں۔اب دور بدل رہا ہے قابل اور اہل شخصیات کےلئے راستے کھل رہے ہیں اور ضروری نہیں ایسے افراد ایک ہی منصب کی ذمہ داریوں کو بطور احسن نبھا سکیں بلکہ وہ بیک وقت ایک سے زائد ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے نبھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ پاکستان کو اب ایسے ہی ملٹی ٹاکسنگ یعنی ایک ہی وقت میں مختلف امور کو چلانے پر عبور رکھنے والی شخصیات کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri