بھارت میں وقف ترمیمی بل لوک سبھا (قومی اسمبلی) میں 12 گھنٹے بحث کے بعد منظور کرلیا گیا۔ کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی نے اس بل کو آئین پر حملہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ مودی حکومت ملک کو کھائی میں گھسیٹ رہی اور آئین کو بھی برباد کررہی ہے۔رکنِ پارلیمان اسد الدین اویسی نے لوک سبھا میں وقف بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل آرٹیکل 25 اور 26 کی خلاف ورزی ہے۔
وقف بل مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ مودی حکومت نے مسلمانوں کی وقف کردہ زمین کے انتظام میں زبردست تبدیلیوں کا منصوبہ بنایا ہے جس سے حکومت اور مسلمانوں کے درمیان ممکنہ طور پر کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ یہ قانون مسلم برادری اور مودی حکومت کے درمیان کشیدگی کے دوران سامنے آیا۔ لوک سبھا میں قائد حزبِ اختلاف راہول گاندھی نے کہا ہے کہ بل مسلمانوں کو پسماندہ کرنے اور ان کی جائیداد کے حقوق ختم کرنے کے لیے بنایا گیا، یہ صرف مسلمانوں پر حملہ نہیں بلکہ مستقبل میں دیگر اقلیتوں کے خلاف بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت بھارت میں مسلمانوں کی 872000 سے زائد وقف جائیدادیں موجود ہیں جن کی مجموعی مالیت کا اندازاً 14 ارب ڈالر ہے۔
یہ قانون جائیدادوں بشمول مساجد، قبرستان اور یتیم خانوں کو حکومتی کنٹرول میں لینے کا ایک گھناﺅنا منصوبہ ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی ورثے پر براہ راست حملے کے مترادف ہے۔ اس بل پر صرف مسلم تنظیموں کی طرف سے ہی تنقید نہیں کی جا رہی بلکہ اپوزیشن نے بھی اس کی بھرپور مخالفت کی ہے جبکہ ہندو انتہا پسند جماعت شیوسینا نے بھی اس بل کو مسلمانوں کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو ہر ملک میں اقلیتوں کے حقوق کی معمولی سی خلاف ورزی بھی نظر آجاتی ہے لیکن گزشتہ 77 سال سے بھارت اپنی اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے ساتھ جو کررہا ہے وہ انھیں آج تک نظر نہیں آیا۔ اس سے تو یہی عندیہ ملتا ہے کہ بھارت کو اس سب کے لیے عالمی طاقتوں کی اشیرباد حاصل ہے۔ اقوام متحدہ تو اب سراسر امریکی لونڈی کا کردار ادا کر رہا ہے، اسے نہ مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مسلمان اقلیت پر ہونے والے مظالم نظر آتے ہیں اور نہ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی نظر آتی ہے۔ اس تناظر میں اسلامی تعاون تنظیم کو اپنا موثر کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی عوام اورکشمیری اور بھارتی مسلمانوں کو مودی سرکار کے مظالم سے مستقل نجات دلانے کے لیے کوئی قابلِ عمل پالیسی تشکیل دی جا سکے۔
بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مودی حکومت کے مسلط کردہ لیفٹیننٹ گورنر کے ماتحت انتظامیہ نے کشمیری مسلمانوں کو انکی املاک اور سرکاری نوکریوںسے محروم کرنے کا مذموم سلسلہ جاری رکھتے ہوئے مزید چار لوگوں کی جائیدادیں ضبط کر لی ہیںجبکہ دو کو ملازمت سے برطرف کر دیا ہے۔
بھارتی پولیس نے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے حکم پر ضلع گاندربل میں تین افراد کی 9 کنال اور 7 مرلہ زرعی اراضی غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون ”یو اے پی اے “ کے تحت ضبط کی ہے جس کی مالیت 3 کروڑ47لاکھ روپے بتائی جا رہی ہے۔جن افراد کی جائیدادیں ضبط کی گئی ہیں انکے نام فردوس احمد وانی ، محمد رمضان بٹ اور محمد ایوب گنائی ہیں۔فردوس احمد وانی ٹریسا صفاپورہ، محمد رمضان بٹہ پورہ صفاپورہ جبکہ محمد ایوب گنائی پہلو پورہ صفاپورہ کے رہائشی ہیں ۔ صفاپورہ ضلع گاندر بل کا علاقہ ہے۔پولیس نے ضلع پونچھ کے علاقے بگیال درہ کے رہائشی محمد بشیر کی 6کنال پر مشتمل اراضی ضبط کر لی ہے۔
پاکستان نے کہا ہے کہ بھارت اقلیتوں کے حقوق کا علمبردار بننے کے قابل نہیں، کیونکہ وہ خود ان حقوق کی تسلسل سے خلاف ورزی کرتا آرہا ہے ، پاکستان میں ریاستی ادارے پالیسی کے طور پر اقلیتوں کے تحفظ کے لیے فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کے لوک سبھا میں دیے گئے بیان اور پاکستان میں اقلیتوں کی صورتحال پر ہونے والی بحث سے متعلق ذرائع ابلاغ کے اٹھائے گئے سوالات کے جواب میں کہا ہے کہ بھارت اقلیتوں کے حقوق کا علمبردار بننے کے قابل نہیں، کیونکہ وہ خود ان حقوق کی تسلسل سے خلاف ورزی کرتا آرہا ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان میں ریاستی ادارے پالیسی کے طور پر اقلیتوں کے تحفظ کے لیے فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، بھارت میں اقلیتوں کے خلاف اکثر واقعات حکمران جماعت کے بعض عناصر کی ایما پر یا حتیٰ کہ شمولیت کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف نفرت، امتیازی سلوک اور تشدد کو منظم طور پر ہوا دینے کے واقعات دستاویزی شکل میں موجود ہیں۔
امتیازی شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے ) سے لے کر گھروں کو بلڈوز کرنے تک، 2002 کے گجرات قتل عام سے لیکر 2020 کے دہلی فسادات تک، 1992 میں بابری مسجد کے انہدام سے لے کر 2024 میں اس کے ملبے پر مندر کی تعمیر تک، گاو¿ کے تحفظ کی آڑ میں تشدد اور پر ہجوم تشدد کے واقعات سے لے کر مساجد اور مزارات پر حملے بھارت کا ریکارڈ مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزیوں سے داغدار ہے ، دوسروں کے ہاں اقلیتوں کے حقوق کا ڈھونگ رچانے کے بجائے بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی ناکامیوں کو دور کرے۔ اسے چاہیے کہ وہ مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کی سلامتی، تحفظ اور بہبود کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے ، نیز ان کی عبادتگاہوں، ثقافتی ورثے اور بنیادی حقوق کا تحفظ کرے۔
کالم
مسلمانوں کی جائیدادیں ضبط کرنے کا بل منظور
- by web desk
- اپریل 24, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 57 Views
- 3 ہفتے ago