کالم

آپریشن عزم استحکام،وزیر اعظم پاکستان کی وضاحت

سانحہ اے پی ایس کے بعد حکومت نے دہشتگردی سے متعلق مقدمات میں سزا یافتہ انتہا پسندوں کو پھانسی دینے کا فیصلہ کیا۔فیصلہ کیا گیا کہ دہشت گردوں کے فوری ٹرائل کے لیے مسلح افواج کے افسران کی سربراہی میں خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔ یہ عدالتیں دو سال کی مدت کیلئے قائم کی جائیں گی۔طے کیا گیا کہ ملک میں مسلح ملیشیا کی تشکیل کی اجازت نہیں دی جائےگی۔نیشنل کاونٹر ٹیررازم اتھارٹی کو بحال کر کے اسے موثر بنایا جائے گا۔نفرت انگیز تقاریر کے خلاف کریک ڈاون کیا جائے گا اور ایسی تقاریر پھیلانے والے اخبارات، رسائل کےخلاف کارروائی کی جائےگی ۔ نیشنل ایکشن پلان میں یہ طے کیا گیا کہ دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں کے مالی ذرائع منقطع کئے جائینگے ۔کالعدم تنظیموں کو مختلف ناموں سے کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔انسداد دہشتگردی کی خصوصی فورس بنائی جائے گی۔مذہبی انتہا پسندی کے انسداد اور اقلیتوں کے تحفظ کیلئے اقدامات کیے جائیں گے۔مدارس کو ریگولرائز اور ریفارم کیا جائے گا۔ ملک کے دیگر حصوں کی طرح پنجاب کے کسی بھی حصے میں انتہا پسندی کو کوئی جگہ نہیں دی جائے گی۔کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔سیاسی مفاہمت کیلئے بلوچستان حکومت کو تمام سٹیک ہولڈرز کی جانب سے مکمل اختیار دیا جائے گا۔فرقہ وارانہ تشدد پھیلانے والے عناصر کےخلاف کارروائی کی جائےگی۔افغان مہاجرین کی رجسٹریشن اور ملک بدری کے لیے جامع پالیسی بنائی جائے گی۔صوبائی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو دہشت گردوں کے رابطے تک رسائی دینا اور فوجداری نظام میں بنیادی اصلاحات کے ذریعے انسداد دہشت گردی کے اداروں کو مضبوط کرنے کیلئے آئینی ترامیم اور قانون سازی کی جائے گی۔ یہ ایسا منصوبہ تھا جس پر پوری طرح عمل ہو جاتا تو دہشت گردی و انتہا پسندی ختم ہو جاتی ۔حقائق بتاتے ہیں کہ ان نکات میں سے صرف چند پر عملدرآمد ہو سکا۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت پاکستان کے آئین میں اکیسویں ترمیم7 جنوری 2015کو منظور ہوئی۔ 25مارچ 2015 تک کٹر دہشتگردوں کے 50سے زائد مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے گئے۔ جنوری سے 23مارچ 2015 کے درمیان 55,000افغان مہاجرین کو بے دخل کیا گیا۔ سزائے موت پانےوالے قیدیوں کی پھانسی پر سے سات سال پرانی پابندی اٹھا لی۔مارچ 2015 تک، سویلین اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب 150 افراد کو گرفتار کیا، جن میں سے نصف علما تھے۔25مارچ 2015 کو حکومت نے مشتبہ افراد کو 10.2 ارب روپے کی نقد رقم فراہم کرنے کیلئے استعمال ہونے والے متعدد اکاونٹس کو منجمد کر دیا۔تمام سکولوں کی باونڈری وال 8 فٹ تک اور 2فٹ اونچی تار نصب کرائی گئی۔15مارچ2015تک، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے 70 ملین سے زیادہ موبائل فون سمز کی تصدیق کی اور 11ملین کو دوبارہ تصدیق نہ ہونے کی وجہ سے بلاک کر دیا گیا ۔یہ سب وہ کام تھے جو سکیورٹی فورسز نے اپنی ذمہ داری سمجھ کر انجام دیئے ۔ سماج سدھار کیلئے جو کچھ حکومتوں کی ذمہ داری پر چھوڑا گیا ،وہ سب ادھورا رہا ، مصلحتیں حاوی ہو گئیں۔ آپریشن عزم استحکام کے اعلان کے بعد مختلف طبقات کی جانب سے پیش کئے جانے والے تحفظات کا فوری جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم کے دفتر سے جاری وضاحت کئی غلط فہمیوں کا ازالہ کرتی ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض حلقوں کی جانب سے پھیلائے گئے خدشات بے بنیاد ہیں تاہم اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وزیر اعظم آفس نے معاملے کی حساسیت کا ادراک کرنے میں بہت تاخیر دکھائی۔اب انہیں بلا تفریق سیاسی رابطے کرنا ہوں گے۔ پاکستان کی معاشی ترقی کے راستے میں انتہا پسندی و دہشت گردی کی رکاوٹیں آن کھڑی ہوئی ہیں ۔سابق حکومتوں کے دوران متعدد آپریشن ہو چکے ہیں جن میں اب تک اسی ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکار و شہری شہید ہوئے ہیں۔ ہزاروں دہشت گرد مارے گئے۔اس بد امنی نے پاکستان کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ۔خطے کے لگ بھگ تمام چھوٹے بڑے ممالک پاکستان سے آگے نکل چکے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے”آپریشن عزم استحکام“کی منظوری انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ایک اہم اقدام ہے ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قوم خودمختاری اور سلامتی کو لاحق کسی بھی خطرے کو کچلنے کے عزم میں متحد ہے۔کابینہ کی جانب سے آپریشن عزم استحکام کی توثیق اس امر کی علامت ہے کہ حکومت دہشت گردی کے خلاف متحد ہے،اس کی صفوں میں کوئی ابہام نہیں۔وہ غیر متزلزل عزم کے ساتھ سکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے وفاقی اور صوبائی قیادت کو عسکری اور سویلین ایجنسیوں کے ساتھ ہم آہنگ کر رہی ہے۔کسی فوجی آپریشن کے لئے سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان یہ ہم آہنگی ضروری ہوتی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فیصلہ کن طور پر ختم کرنے کیلئے آپریشن عزم استحکام کی منظوری دی ہے،انہوں نے فوجی کارروائی کو سماجی،اقتصادی اور قانونی اصلاحات کے ساتھ ملایا ہے۔یہ ایک وسیع عمل ہے جو یقینی طور پر صرف عسکری کارروائی تک محدود نہیں رہے گا بلکہ ان تمام عناصر تک اس کا دائرہ پھیلے گا جو ملک میں بد امنی و انتشار کا باعث بن رہے ہیں۔ سینٹرل ایپکس کمیٹی کا نیشنل ایکشن پلان کا جائزہ تمام محاذوں پر انسداد دہشت گردی کے اقدامات کو مضبوط بنانے کیلئے انتھک عزم کی عکاسی کرتا ہے۔یہ وہ عزم ہے جو آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد قوم نے اتفاق رائے سے پیش کیا ۔ حکومت مضبوط علاقائی تعاون کی اہم ضرورت کو سمجھتی ہے، دہشت گردوں کے آپریشنل مراکز کو کم کرنے اور مضبوط بین الاقوامی شراکت داری قائم کرنے کیلئے سیاسی سفارتی کوششوں کو تیز کرنا چاہتی ہے۔اس میں کوئی قباحت نہیں لیکن سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ اس آپریشن کی سفارتی حمایت کے لئے چین سے جو تعاون مل سکتا ہے ،ویسا تعاون دوسرے ممالک سے کیسے حاصل کیا جائے۔وہ اس کام میں ہماری حمایت کیوں کریں؟اس بار یہی نکتہ پاکستان کی خارجہ میشنری کے لئے امتحان ہو سکتا ہے۔ سکالرز اور ماہرین کی خدمات اہم ہوتی ہیں۔نئے آپریشن کی نظریاتی شکل اور قانونی اصلاحات کا کام یہی لوگ کر سکتے ہیں۔ دیکھیں اس اہم ضرورت کو حکومت حتمی انجام تک پہنچاتی ہے یا دو ہزار پندرہ کے نیشنل ایکشن پلان کی طرح مصلحت کی چادر اوڑھ لیتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri