کالم

بھارتی شر انگیزیاں

باشعور حلقوں کے مطابق یہ امر غالبا کسی سے بھی پوشیدہ نہےں کہ قیام پاکستان کے زور اول سے بھارتی حکمران بلوچستان میں مختلف نو کی سازشوں میں ملوث رہے ہےں اور یہ سلسلہ آج بھی پوری شدت کے ساتھ جاری ہے ۔ اس ضمن میں یہ امر بھی توجہ کا حامل ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’آئی بی‘ ابتدا میں بلوچستان میں شرانگیزی کی مرتکب ہوتی تھی البتہ 1968میں را کا قیام عمل میں آیا تو بلوچستان کےلئے را نے خصوصی بلوچی زبان کا ڈیسک قائم کیا جو بھارتی کاروائیوں کو انجام دیتا آرہا ہے جس کی تازہ ترین مثال 25ستمبر کو تب سامنے آئی جب عدلیہ بلوچ نامی خودکش حملہ آور نے اپنے اعترافی بیانات میں بہت سے چشم کشا انکشافات کےے۔ اسی تناظر میں سنجیدہ حلقوں نے ریاست’قلات‘ کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا قدرے تفصیل سے جائزہ لیتے کہا ہے کہ یہ بات خصوصی توجہ کی حامل ہے کہ بلوچستان کی تشکیل 1877 میں برطانوی ایجنسی کے طور پر ہوئی تھی، جس کا صدر مقام کوئٹہ تھا۔ برطانوی حکومت نے سرداروں اور ملکوں کو مالی فوائد دے کر ان کے علاقوں میں امن قائم رکھنے کا نظام بنایا تھا جسے سنڈمین سسٹم کہا جاتا ہے ۔سرداروں اور ملکوں کو مالی فوائد دے کر امن قائم رکھنے کا برطانوی نظام آج بھی بلوچستان میں سیاسی طور پر موجود ہے۔ یاد رہے کہ قلات کی خانیت کا قیام 15ویں صدی میں ہوا تھا، اور یہ علاقہ افغان اور مغل سلطنتوں کے درمیان کئی بار بدلا۔پاکستان میں شمولیت کے حوالے سے قلات کا کرداراہم ہے ۔ واضح رہے کہ 1947 میں خان آف قلات نے پاکستان میں شمولیت کے حوالے سے تاخیری حکمت عملی اپنائی، جس کی وجہ سے خاران، مکران اور لسبیلہ نے قلات کی بالادستی کو مسترد کیا تھا۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بلوچستان کی آبادی نسلی اور لسانی طور پر متنوع ہے، جس میں بلوچ، پشتون، براہوی، کرد اور ہزارہ قومیں شامل ہیں۔پاکستان میں شمولیت میں خاران، مکران، اور لسبیلہ کے حکمرانوں نے قلات کی بجائے پاکستان میں شمولیت کے حق میں فیصلہ کیا اور فوری الحاق کی خواہش ظاہر کی تھی۔مبصرین کے مطابق بلوچستان کے نصف سے زائد حصہ غیر بلوچ آبادی پر مشتمل ہے، اس لیے پورے صوبے کو ”بلوچستان” کہنے کی مخالفت کی جاتی ہے ۔ بلوچستان کے روابط ایران، یواے ای، چین اور بھارت کے ساتھ ہیں، اور ان ممالک کے مفادات بلوچستان کے حالات پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔پاکستانی حکومت کی ترقیاتی پالیسی اور مالی امداد بلوچ سرداروں کی طاقت کو بڑھا رہی ہے، اور عوام کےلئے کوئی متبادل قیادت نہیں ہے۔علاوہ ازیں سرداروں کی مکمل گرفت کی وجہ سے بلوچستان میں عوام کو انصاف، انتظامیہ اور مقننہ کی رسائی مشکل ہو گئی ہے اور اس کا کوئی حل نظر نہیں آتا ۔یاد رہے کہ بلوچ قوم پرستوں کا دعویٰ کہ خان آف قلات نے پاکستان میں شمولیت دبا¶ میں آکر کی، حقیقت سے دور ہے۔قائد اعظم محمد علی جناح کی قانونی بصیرت قلات کی تاریخی بالادستی کو تسلیم کرتی تھی، لیکن بلوچ قبائل کے اندرونی اختلافات اور خان آف قلات کی تاخیری حکمت عملی کی وجہ سے زمینی حقائق پاکستان کے حق میں تھے۔ اس تاخیر پر جناح مایوس ہوئے اور بالآخر خاران، مکران، اور لسبیلہ کی پاکستان میں فوری شمولیت کو قلات سے الگ تسلیم کیا ۔ قائد نے خان آف قلات کے ساتھ مذاکرات کیے، جنہوں نے الحاق پر تاخیری حکمت عملی اپنائی، جس کے باعث قائداعظم نے قلات کے بجائے دیگر ریاستوں کی پاکستان میں شمولیت کو ترجیح دی، اور یوں قلات کے بجائے بلوچستان کے دیگر حصوں کی فوری شمولیت کو یقینی بنایا۔ابتدائی طور پر بلوچستان میں را، MI-6 اور دیگر غیر ملکی ایجنسیوں کی مداخلت تھی جو بلوچ قوم پرستی اور علیحدگی پسند تحریکوں کو بڑھاوا دینے کےلئے کام کر رہی تھیں۔ ان کی مداخلت اب خود کو نظریات اور دلکش نعروں کے ذریعے برقرار رکھ رہی ہے لیکن اس سے متاثرہ آبادی کی تعداد بہت کم ہے۔غیر جانبدار ماہرین کے بقول بلوچ عوام اپنے فرسودہ اور استحصالی اشرافیہ کے زیر اثر ہیں، اور اس استحصال کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آتا۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی خصوصی توجہ کی حامل ہے کہ بلوچ نوجوان اور دیگر صوبوں کے کچھ حلقے بزنجو، مینگل، مری، بگٹی جیسے قبائلی رہنما¶ں کے پیچھے اندھا دھند چل رہے ہیں اور انہیں عسکریت پسندی کی طرف راغب کیا جا رہا ہے اور بلوچستان کے تعلیمی اداروں میںپاک مخالفت پروپیگنڈے کو ہوا دی جا رہی ہے۔اس ضمن میں یہ امر بھی توجہ کا حامل ہے کہ ان انتہاءپسند گروہوں خصوصا ”مجید بریگیڈاور بی ایل ایف کے اندرونی اختلافات بھی جاری ہےں۔یہ بات بھی اہم ہے کہ نام نہاد بلوچ قوم پرست خود تو بیرون ملک انتہائی عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہےں مگر انکے جھانسے کا شکار لوگ کمپرسی کی زندگی گزار رہے ہےں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سبھی حلقے ان تضادات کو پوری طرح واضح کریں اور عام لوگوں تک یہ پیغام پہنچائیں کہ پاک ریاست بلوچستان کے عوام کے ساتھ کھڑی ہے اور بلوچ عوام کے تمام دکھوں کا مداوا کیا جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے