کالم

دو اسمبلیاں ؟ ڈیفالٹ کی تلوار

جب سے جنرل عاصم منیر نے پاک فوج کی کمان سنبھالی ہیے مختلف حلقوں کی طرف سے فوج پر تنقید کا سلسلہ رک چکا ہے، سوشل میڈیا پر یہ تنقید تھمی تو نہیں البتہ اس کا رخ سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی طرف ہو گا ہے۔ اب سب سیاسی قوتوں کو اس بات کا ادراک ہو جانا چاہیے کہ فوج مکمل طور پر غیر سیاسی ہو چکی ہے۔ جنرل عاصم منیر نے لائن آف کنٹرول کا دورہ کیا انہوں نے بھارت کو متنبہ کیا اگر جنگ مسلط کی گئی تو مادر وطن کے ایک ایک انچ کا دفاع کریں گے بلکہ لڑائی دشمن کے علاقے میں لے جائیں گے ۔ آرمی چیف نے کہا کہ دنیا اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں سے کیے گئے وعدوں پر انصاف فراہم کرے ۔آرمی چیف کی تبدیلی کے بعد عمران کے جلسوں اور لونگ مارچوں میں کمی آئی ہے لیکن انہوں نے پنجاب کے کی حلقوں میں ریلیاں نکالنے کا پروگرام بنایا ہے ۔یہ پبلک کے پاس اپنا پیغام پہنچانے کا اچھا طریقہ ہے اب پی ٹی آئی کو مین اسٹریم میں آ جانا چاہے۔اقتدار سے نکلنے کے بعد سات آٹھ ماہ تک پی ٹی آئی کی قیادت نے انتخابات کی تاریخ حاصل کرنے کےلئے ہرکوشش آزمائی لیکن انتخابات کی تاریخ حاصل نہ کر سکے۔26نومبر کو جلسے کے اختتام پر عمران خان نے پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کرکے تمام سیاسی قوتوں کو حیران کر دیا انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سلسلے میں مشاورت کے بعد فیصلہ کیا جائے گا ۔ان کے اس اعلان کے بعد سیاسی حلقوں میں بحث شروع ہو گئی تھی کہ خان اس بیان پر یو ٹرن لےگا کہ نہیں؟ اب عمران خان نے اسمبلیاں توڑنے کی بجائے حکومت کے ساتھ مذاکرات کو انتخابات کی تاریخ سے مشروط کر دیاہے۔ خان ایک طرف بات جیت کی بات کر رہے ہیں دوسری طرف الزامات کا سلسلہ بھی جاری ہے ویڈیو لنک سے خطاب میں حکومتی اتحاد کی کرپشن کی داستانیں دہراتے ہیں۔ انہوں نے ایک بار پھر کہا ہے کہ اسمبلیاں اسی ماہ توڑ دوں گا لیکن انتخابات ہماری نہیں پاکستان کی ضرورت ہے پرویز الہٰی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وزارت اعلیٰ عمران خان کی امانت ہے جب وہ کہیں گے اسمبلی توڑ دوں گا لیکن انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ عمران خان انہیں دوبارہ وزیر اعلیٰ پنجاب نہیں بنائیں گے ۔ مبینہ طور پر کے پی کے وزیر اعلیٰ محمود خان بھی اسمبلیاں ٹوڑنے کے حق میں نہیں۔در اصل پنجاب اور کے پی کے میں بہت سے ترقیاتی منصوبے زیر تکمیل ہیں وہ انہیں مکمل کرنا چاہتے ہیں تا کہ عوام میں اپنی اپنی کارکردگی دکھا سکیں عمران خان کے علاوہ کوئی بھی اسمبلیاں توڑنے کے حق میں نہیں۔پی ٹی آئی کے حکومت کے ساتھ بیک چینل رابطے ہو رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ کوئی بریک تھرو ہو جائے اور قومی اسمبلی میں واپسی کی کوہی راہ نکل آئے اور پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی اسمبلیاں نہ توڑنی پڑیں۔اب تو چوہدری شجاعت حسین نے بھی کہ دیاہے کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں۔ ایک طرف سیاست جاری ہے دوسری طرف اسحاق ڈار بھی ڈالر کو کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں آپ نے لندن سے آتے ہی دعوی کیا تھا کہ ڈالر کی اصل قیمت 200 سے نیچے ہے ان کے آنے کے فوراً بعد ڈالر کی قیمت میں کچھ کمی دیکھی گئی لیکن سب عارضی ثابت ہوا۔ معاشی ماہرین کے مطابق یہ مصنوعی کمی تھی۔ اس کے بعد ڈالر نے پھر اڑان بھری اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مارکیٹ میں ڈالر شارٹ ہے، بندرگاہ پر لہسن اور ادرک کے کنٹینرز کو کلیر نہیں کیا جا رہا کیونکہ بینک ڈالرز نہیں دے رہے۔غیر جانبدار ماہرین معیشت کہہ رہے ہیں کہ صورت حال سری لنکا جیسی تو نہیں لیکن ریزرو اور ٹیکس کی وصولی میں کمی کی وجہ سے ہم آہستہ آہستہ ڈیفالٹ کی طرف جا رہے ہیں وزارت خزانہ کہ رہی ہے کہ ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیںوزیر مملکت عائشہ غوث نے ایک بیان میں کہا کہ جلد آئی ایم ایف سے قسط مل جائے گی۔ دراصل آئی ایم ایف نے کچھ اور شرائط عائد کر دی ہیں جن میں مبینہ طور پر منی بجٹ کی شکل میں 800ارب روپے کے مذید ٹیکس لگانے کے لیے کہا ہے اس سے مہنگائی کا ایک اور طوفان اٹھے گا جو عوام کےلئے ناقابل برداشت ہو گا سعودی عرب نے اپنا پیسہ نہ نکال کر ہماری مدد کی ہے کچھ دیگر ممالک بھی مدد کو آئے ہیں حکومت نے سکوک بانڈز جاری کیے ہیں اس حکومت کا اصل مسئلہ بے تحاشہ اخراجات کا ہے جن میں جہازی سائز کی کابینہ وزراہے مملکت اور مشیران اس کے علاوہ ہیں۔ اتحادی حکومت کی وجہ سے سب کو خوش رکھنا حکومتی مجبوری ہے جب تک ہم غیر ضروری اخراجات کو کنٹرول نہیں کریں گے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا اس کے علاوہ ہمیں بااثر لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا اس سلسلے میں ایک کوشش عمران خان نے ریونیو بڑھانے کےلئے ٹیکس کے ماہر شبرزیدی کو چیرمین ایف بی آر لگا کر کی تھی لیکن بڑے بڑے مگرمچھوں کے سامنے وہ بھی بے بس ہو گئے اور آخر کار انہیں استیفیٰ دینا پڑا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اسحاق ڈار ملکی معیشت کو کنٹرول کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہیے ہیں اور وہ اب بھی کہ رہے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ لیکن جب تک معیشت میں استحکام نہیں آ جاتا اس وقت تک ملک پر ڈیفالٹ کی تلوار لٹکتی رہے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے