کالم

دین اسلام اور ہم

afsar_aman

مصنف اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ عام مسلمانوں کی طرح، میں بھی ایک مسلمان کے گھر انے میںپیدا ہوا، اس لیے پیدائیشی مسلمان ہوں۔مجھے کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ میرا مسلمان ہونا مجھ سے کیا تقاضا کرتا ہے۔ میرے والد میری کمسنی میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ میں اپنے والد کے پیار و محبت سے محروم رہا ۔ میری والدہ صاحبہ(مرحومہ) نے مجھے چار بہنوں اور ایک بھائی کے ساتھ محنت مزدوری کر کے پالا۔۲۶۹۱ءاپنے شہر حضرو سے میں میٹرک پاس کیا۔ رزق کی تلاش میں کراچی گیا۔وہاں ایک بنک میں میں سوروپے ماہوار پر جونیئر کلرک کی نوکری کی۔ اسی دوران سندھ مدرسہ سے انٹر کام کا امتحان پاس کیا۔بنک کے بعد ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت کی۔کراچی یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری لی۔ نصف صدی سے زیادہ کراچی میں رہنے کے بعد۷۱۰۲ءمیں کراچی سے اسلام آباد منتقل ہو گیا۔ اب یہیں زندگی کے دن گزار رہاہوں کہ کب اللہ کی طرف سے بلاوا آجائے۔
کراچی ۸۶۹۱ءمیں ایک دوست کے ذریعے جماعت اسلامی سے تعارف ہوا۔ جماعت کے کارکنوں نے ہفتہ وار درس قرآن میں بلانا شروع کیا۔مولاناسید ابواعلی مودودیؒ کا لٹریچر مطالعہ کے لیے دیا۔سید موددیؒ کی تفسیر، تفہیم القرآن اور لٹریچر کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ صرف اتنا ہی کافی نہیں کہ بندہ مسلمان کے گھر میں پیدا ہوا ہے اس لیے ہی مسلمان ہے۔ مسلمان ہونے کےلئے ضروری ہے کہ اسے دین کا علم ہو۔ وہ شعوری مسلمان ہو۔ اُسے یہ معلوم ہونا چاہےے کہ اللہ کا دین ایک مسلمان سے کیا مطالبہ کرتا ہے۔ اس مطالعہ سے آہستہ آہستہ دین اسلام کی سمجھ آئی کہ دین ایک مسلمان سے کیا تقاضہ کرتا ہے ۔کیا انسان بھی دوسرے حیوانوں کی طرح ایک حیوان ہے یا اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ انسان کو ارادے کی اجازت دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے۔ انسان چاہے نیک عمل کرے ۔چاہے برے عمل کرے۔مگرمسلمان یاد رکھے کہ نیک عمل کی وجہ سے اللہ اس کو جنت میں داخل کرے گا اور برے عمل کی وجہ سے دوزخ میں ڈالے گا۔ یعنی یہ دنیا انسان کےلئے مہلت عمل ہے۔ انسان کو اللہ نے اس دنیا میں اس لیے بھیجا کہ وہ اللہ کو واحد مانے۔ اس کے رسولوںؑ پر ایمان لائے۔اپنی آخرت کی فکر کرے۔ اللہ کی جنت کے حصول کے لیے اللہ کے دین کو قائم کرنے کی جد وجہد میں نیک لوگوں کے ساتھ شامل ہو جائے۔ خود اللہ کے دین پر عمل کرے اور دوسروں کو بھی اس طرف آنے کی دعوت دی۔جماعت اسلامی کا یہ ہی پیغام ہے ۔جماعت کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہدکا مقصد عملاً اقامت دین( حکومت الہیہ، اسلامی نظام زندگی، نظام مصطفےٰ کا قیام) اور حقیقتاً رضائے الٰہی اور فلاح اُخروی کا حصول ہے۔ اللہ نے مجھے بھی اس قافلہ حق میں شامل ہونے کی سعادت عطا کی۔ ۸۶۹۱ءسے میں اس قافلہ میں شریک ہوں۔ میں مطالعہ قرآن و حدیث اور سیرت صحابہؓ کا مستقل طالب علم ہوں۔ الحمد اللہ، تفہیم القرآن کا مستقل طالب علم ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی دوسری تفاسیر کا تقا بلی مطالعہ بھی کیا۔چھوٹی چھوٹی حدیث کی کتابوں کے مطالعہ کے بعد صحاح ستہ کا مطالعہ شروع کیا جو مکمل ہو گیا۔ اب موطا امام مالک ؒ کا مطالعہ شروع کیا ہے۔میں نے سوچا کہ جو میںنے مطالعہ کیا ہے اس سے تو مجھے ضرور فاہدہ ہوا مگر کیا اس علم سے دوسروں کو بھی فاہدہ ہوا۔ جب میں تعلیم حاصل کرنے کے سندھ مدرسہ کراچی میں داخل ہوا تو اس کے مین گیٹ پر یہ لکھا ہوا تھا( inter to learn go forth to serve) یعنی علم سیکھنے کےلئے مندرسہ میں داخل ہو اور سیکھنے کے بعد اسے پھیلانے کی کوشش کرو۔پھر میں نے جو کچھ مطالعہ کیا اس کو کالم کی شکل میں لکھ کر اخبارات میں شائع کرنے کے لیے بھیجا شروع کیا۔ اللہ کا شکر کہ اخبارات نے میرے کالم جو حالات حاضرہ، اسلام اور جماعت اسلامی پر مشتمل ہیں شائع ہونے شروع ہوئے۔ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ ان کالموں کو کتابی شکل دی جائے۔میں نے حالات حاضرہ پرکچھ عرصہ قبل ” مشرقی اُفق“ کے نام سے کتاب شائع کی۔اب آپ کے ہاتھ میں” دین اسلام اور ہم۔ بنیادی تاریخی جائزہ“ کتاب موجود ہے ۔ اس کے بعد ان شاءاللہ جلد ہی ” جماعت اسلامی کیا چاہتی ہے“ پیش کی جائے گی۔ میں نے قرآن کو اللہ کی طرف سے اپنے لیے ایک خط سمجھا۔ قرآن کے مضامین جو میری سمجھ میں آئے، میں نے انہیں تحریری شکل دے دی ۔ خاص کرموجودہ دور کے دین بےزار لوگوں کو جواب دینے کی کوشش کی۔مصنف نے ”دین اسلام اور ہم کتاب میں قرآن کو انسانیت کی طرف ایک خط جان کر اسے جیسے خود سمجھا ویسا ہی دورسروں کو سجمجھانے کی کو شش کی ہے۔خاص کر مغرب زدہ، روشن خیال، لبرل، سیکولر اور مذہب بے زار حضرت کو۔اس کتاب میں اللہ کے آخری پیغام قرآن کے بتائے ہوئے ا س آخری دین کا تعارف،اس کی تشریح کرنے والے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت اور صحابہ اکرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اجمعین نے اس پر کیسے عمل کیا، بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔آخری امت کو اللہ تعالیٰ کےا س آخری پیغام پر کیسے عمل کرنا چاہےے۔دین اسلام کیا ہے، اس دین کا انسانیت سے کیا مطالبہ ہے اور اس دیں کو ماننے والے مسلمانوں کا کیا رویہ ہے پر سیر حاصل بحث کی ہے۔حج الودع کے موقعہ پر اللہ کے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ اکرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے آپ کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا۔صحابہ اکرام ؓ نے فرمایاجی بل کل آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا ہے۔اللہ کے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف انگلی اُٹھا کر فرمایا کی اے اللہ میں نے تیرا پیغام تیری مخلوق تک پہنچا دیاہے۔تیری مخلوق اس بات کی گوہی دے رہی ہے۔ تو بھی گواہ رہنا۔ قرآن میں یہ آیت نازل ہوئی کہ میں نے آج دین مکمل کر دیا ہے۔ اسی دین کو قیامت تک رہنا ہے۔ اس دین کو آگے پہنچانے کا کا م اب مسلمانوں کے ذمہ ہے۔ انہیں فریضہ شہادت حق ادا کرنا ہے۔ یعنی اس دین کے پیغام کو ساری دنیا کے لوگوں تک پہنچانا ہے۔دین اسلام ایک پر امن اور آشتی والا دین ہے۔ یہ کوشش مصنف نے اس کتاب کے ذریعہ کرنے کی کی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے ۔ آمین۔ میری کتاب ” دین اسلاام اور ہم بنیادی تاریخی جائزہ“ میں جو اچھی باتیں ہیں وہ میرے رب کی طرف سے ہیں اور اگر کچھ کمزوری رہ گئی ہے تو اس میں ذمہ دار ہوں۔میں اپنی کمزوری پر معافی کا درخواست گزار ہوں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے