کالم

رمضان المبارک،روےوں مےں مثبت تبدےلی کا سفر

رمضان المبارک نےکےوں کا مہےنہ ہے ۔ےہ مسلمانوں پر خدائے بزرگ و برتر کا اےک بڑا انعام اور احسان ہے ۔روزے اپنی افادےت کے حوالے سے عےسائےوں ،نصرانےوں اور ےہودےوں کے ہاں بھی ملتے ہےں ۔ ہندوستان مےں بھی چےنی دھرم مےں روزے برت کی شکل مےں موجود ہےں ۔قدےم مصرےوں مےں بھی روزہ تہوار کی شکل مےں شامل رہا ۔ےونان مےں خواتےن و فےرےا کی تےسری تارےخ کو روزہ رکھتی ہےں ۔پارسی مذہب مےں بھی روزے کا ثبوت ملتا ہے ۔اسلام اور دےگر مذاہب کے روزوں مےں فرق ہے ۔ان مےں ےہ عام لوگوں پر فرض نہےں ۔اسلام مےں روزوں کی اےک اپنی ہی اہمےت ہے ۔اسی ماہ رمضان کی مبارک ساعتوں کو قرآن پاک کی مقدس آےات کا نزول ہوا ۔روزہ ارکان اسلام مےں سے دوسرا رکن ہے ۔خوش قسمت ہےں وہ لوگ جن کی زندگی مہلت دےکر اس ماہ مبارک مےں نےکےاں کمانے اور جنت خرےدنے کا اےک اور موقع فراہم کرتی ہے ۔ےہ اےام رب دو جہاں کے حضور شکرانے کا اظہار کرنے کے بھی ہےں کہ اس نے ہماری زندگی کو اتنی مہلت دی کہ ہم اپنی کوتاہےوں ،غلطےوں اور گناہوں کی معافی مانگ سکےں اور استغفار کے ساتھ ساتھ تجدےد عہد کرےں کہ مستقبل مےں ہم انہےں نہےں دہرائےں گے ۔چونکہ انسان غلطےوں اور لغزشوں کا بندہ ہے ،گناہ گار ہے ،خطاکار ہے ،پھسل جاتا ہے اور اس ماہ متبرک مےں اس سے رحمت اور بخشش کا طلبگار ہوتا ہے ۔اس ذات واحد و لاشرےک سے اس ماہ مقدس کے اےام مخصوص مےں ہم تزکےہ نفس کا سامان کرےں ۔اپنے جسم و روح کو خدا کی رضا کے تابع کرےں کےونکہ ےہ پختگی دےن کا موسم بہار بھی ہے ۔جن اشےائے ضرورےہ پر بقائے حےات کا انحصار اور بقائے نوع انسانی کا دارومدار ہے ان اےام مےں انہی چےزوں سے مقررہ وقت تک رک جانے کا حکم ہے ۔ےہی کڑا امتحان ہے جو بشری تقاضوں سے اپنے تئےں بچانے کا متقاضی ہے روزہ متبرک خواہشات کے ذرےعے ضبط نفس کا نام ہے جس سے جسم اور روح کی تطہےر کا پاکےزہ عمل انجام پاتا اور روح کی تراوت ،جسم کے سکون اور دل کی ٹھنڈک کا باعث بنتا ہے ۔تمام مسلمان اس ماہ مقدس کی اہمےت اپنے عمل اور اخلاق کے ساتھ واضع کرتے ہےں ۔اجتماع عبادات کے سبب باہمی اخوت اور محبت فروغ پاتی ہے۔جہاں اہل اسلام کےلئے ےہ مہےنہ نعمتےں اور خوشخبرےاں لےکر آتا ہے وہاں ےہ ماہ مبارک ان کےلئے اےک کڑا امتحان بھی ہے کہ ہم کہاں تک اس امتحان مےں سرخرو ہوتے ہےں ۔اگر ہم روزہ کی اصل روح اپنے مےں بےدار نہےں کرتے تو پھر جسم کی پےاس اور بھوک کی اذےت سہنا بے سود اور ہمارا روزہ رکھنا ےا نہ رکھنا برابر ہے ۔معاملہ نےتوں پر ہوتا ہے ۔اگر ہماری نےت مےں فتور ہے ،ہم اپنا محاسبہ نہےں کر پاتے ،ہمارے غلط دنےاوی کام جوں کے توں ہےں تو ےہ قول و فعل کی بدترےن شکل ،اپنے نفس سے دھوکہ اور اپنے خالق و مالک سے بھی دھوکہ دہی کا ارتکاب ہے ۔ہماری عبادتےں ،ہماری رےاضتےں اس خالق کائنات کا شان نہ تو بڑھا سکتی ہےں اور نہ ہی گھٹا ےا کم کرنے پر قادر ہےں ۔روزہ سے تو ہم اپنے سے نجاست و گندگی دور کر کے اپنی اصلاح کا عمل انجام دے رہے ہےں ۔بقول شاعر۔من نکردم پاک از تسبےح شاں،پاک ہم اےشاں شود دور فشاں ۔ماہ رمضان کے اےام مےں اےک تکلےف دہ حقےقت کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ان دنوں نمودونمائش کے افطار کلچر کو فروغ حاصل ہو رہا ہے ۔اےک طرف وطن عزےز مےں غربت ،بھوک اور بے روزگاری کے کارن خود کشےاں ہو رہی ہےں دوسری طرف فائےو سٹار ہوٹلوں اور اپنے محل نما مکانوں مےں افطارےوں کے انتظامات پر دولت کو بے درےغ لٹاےا جانا ہمارے ضمےر پر اےک سوالےہ نشان ہے ۔بڑے ہوٹلوں کے باہر افطاری کےلئے کثےر آئٹمز کے بورڈ آوےزاں ہےں ۔افطاری کا رےٹ سن کر غربت و افلاس کے مارے انسان کا ہذےان و ہےجان زدہ ہو جانا ےقےنی ہے ۔طبقہ امراءکی ےہ ترتےب دی ہوئی پارٹےاں ان کی دولت کی نمودونمائش اور ذاتی تشہےر کے ذرےعے ہےں ۔دراصل وہ اپنی انفرادےت و برتری دکھانے اور دوسروں کے مقابلے مےں اپنے آپ کو نماےاں کرنے کی خواہش کے اسےر ہےں ۔اےسے لوگ ان افطار پارٹےوں کے مواقع کو اپنے ہاتھ سے نہےں جانے دےتے جن مےں ان کی تشہےر کی صورت نکل رہی ہو ۔اسلام طبقاتی فرق کی نفی کرتا ہے لےکن ےہاں تو اس کی آبےاری کے ہی سامان کئے جا رہے ہےں ۔ان پارٹےوں مےں شمولےت اےک سٹےٹس سمبل بن چکا ہے ۔شہر تو درکنار دےہات مےں بھی افطار پر بے حد اسراف کےا جاتا ہے ۔انواع و اقسام کے پھل اور مختلف قسم کی ڈشےں دستر خوانوں کی زےنت بنتی ہےں ۔اےک اندازے کے مطابق اےک ماہ کا گھرےلو بجٹ اےک سال کے اخراجات پر بھاری ہے ۔جس ہادی برحق نے نمک پانی اور کھجور پر روزہ افطار کر کے اپنے دستر خوان کی شکل دنےا کے سامنے پےش کی ہم نے برعکس عمل کر کے انواع و اقسام کی ڈشےں اپنے دستر خوان پر سجنے کا اہتمام کےا ۔اس ماہ مبارک کو ہم بسےار خوری کی نظر کر رہے ہےں لےکن افسوس کہ اس پر پشےمان بھی نہےں ۔ضرورت ہے اپنے اندر کے مسلمان کو بےدار کرنے کی جسے معلوم ہو سکے کہ سحری و افطاری کے وقت کوئی گھر فاقہ کشی کا تو شکار نہےں ۔روزہ تزکےہ نفس ہے ۔ےہ تقسےم رزق اور مساوات کا درس دےتا ہے ۔رمضان المبارک کے مہےنہ مےں ہر عاقل و بالغ مسلمان کےلئے چند سوالات اپنے ضمےر کو پوچھنے کے ہےں ۔ان سوالات کا راقم گزرے رمضان المبارک مےں اپنے کالم مےں اعادہ کر چکا ہے ۔کےا ہم نے اس ماہ مےں ذاتی مفاد کو اجتماعی مفاد پر قربان کرنا سےکھا ؟کےا ہم نے حقوق العباد کا خےال رکھا ´کےا ہم نے غرےبوں کی غربت سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش تو نہےںکی؟ ہماری زبان ،ہاتھ پاﺅں اور آنکھ سے کوئی غلط حرکت تو سرزد نہےں ہوئی ؟کےا ہم نے اپنے سےنوں مےں ہوس کے تراشےدہ بتوں کو چکنا چور کےا؟ کےا زےادہ منافع کی خاطر اس ماہ مکرم مےں ملاوٹ کے مرتکب تو نہےں ہو رہے ؟کےا اپنے مال سے زکواة ادا کر کے مخلوق خدا کی مدد کی؟ کےا ہم لوٹے ہوئے اور چھےنے ہوئے مال پر افطاری تو نہےں کر رہے ؟کےا ہم نے اپنے عمل مےں روادار ہونا اور تحمل و برداشت سےکھی ؟کہےں ہم نے انصاف کی قدرت رکھ کر ذاتی اغراض و طمع مےں عدل پامال تو نہےں کےا ؟کہےں ہم سے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے مےں کوتاہی تو سرزد نہےں ہوئی؟ اگر ہم نے اس مقدس مہےنہ مےں خود کو غفلت کا شکار رکھا اور اپنے مردہ ضمےر کو زندہ نہ کےا تو اس ماہ مےں بھی ہم نے سب کچھ سب کچھ کھوےا پاےا کچھ بھی نہےں ۔ہم روزے کے عملی مظاہرے سے بے اعتنائی برت کر اس کے فےوض و برکات اور شےرےں ثمرات سے محروم ہی رہے ۔ہم نے روشنےوں اور اجالوں کی بجائے اپنے پہ تارےکےاں مسلط کرنے کا ہی اپنے ہاتھوں اہتمام کےا ۔اس ماہ مبارک کا تقاضا ہے کہ خےر کا آغاز کےا جائے ،جذبہ خدمت سے کام لےا جائے ۔ےہ مہےنہ بھی اےسا ہے اےک نےکی کا بدلہ ستر کی شکل مےں ملتا ہے ۔آج ہی ابتدا کرےں اپنے محلہ سے ،اپنے شہر سے ،پرتعےش افطار پارٹےوں پر بے درےغ سرماےہ خرچ کرنے کی بجائے ےہی سرماےہ غربت کے خاتمہ پر صرف کرےں ۔اگر ہم نے اےسا کےا تو ہمارے روزے بھی قبول ہےں اور ہم اس امتحان مےں سرخرو ہےں وگرنہ ہم نے اپنے اوپر تارےکےاں مسلط کرنے کا ہی خود اپنے ہاتھوں اہتمام کےا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے