سمگلنگ کو روکنے کیلئے حکومت پوری سنجیدگی سے کوششیں کرنے میں مصروف ہیں ، ان کوششوں کے دوران ایک نئی بات سامنے آئی ہے گوکہ اس سے پہلے عوام الناس کو یہ بات اچھی طرح پتہ تھی مگر نام لینا مشکل تھا کیونکہ بعض نام ایسے تھے کہ جن کو لیتے ہوئے پر تک جلتے تھے مگر اب چونکہ منظر عام پر آگئے ہیں اس لیے ہمیں بھی لکھنے میں آسانی ہورہی ہے کہ ان سمگلرز کے سرفہرست خود سرکاری افسر نکلے ہیں جو باضابطہ طور پر اپنا حصہ وصول کرتے تھے اور ان اسمگلروں کی سرپرستی کرتے سمگل شدہ ایٹم سرکاری پروٹوکول میں پاکستان کے اندر داخل کیے جاتے تاہم اب ان کے گرد گھیرا تنگ کیا جاچکا ہے دیکھیں کہا تک کامیابی نصیب ہوتی ہے کیونکہ دیکھنے میں آیا کہ مافیا کے ہاتھ قانون کے ہاتھ سے زیادہ لمبے ہوتے ہیں اور ان کا نیٹ ورک کہیں زیادہ وسیع اور موثر ہوا کرتا ہے تاہم نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اپنے بیان میں کہا کہ گورننس کے معاملات کوبہترکرنے کیلئے کوشاں ہیں، معاشی بحالی کے لئے اقدامات کررہے ہیں، حکومتی اقدامات سے جلد بہتری نظر آنا شروع ہوجائے گی۔سرحدی علاقوں میں اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے گہری نظررکھے ہوئے ہیں۔ خلیجی ممالک معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کے خواہشمند ہیں اور سرمایہ کاری کے حوالے سے سعودی ولی عہد اورآرمی چیف کے درمیان مثبت بات چیت ہوئی ہے۔ پاکستان خطے کے ممالک کے ساتھ معاشی تعلقات میں بہتری لارہا ہے۔ نگراں حکومت اپنے اخراجات پرمکمل نظر رکھے ہوئے ہے اور پنشن فنڈز کے مسائل کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ ہم مقبول کی بجائے ملک کیلئے درست فیصلوںپریقین رکھتے ہیں۔انتخابات کیلئے فیصلہ الیکشن کمیشن نے کرناہے۔ادھرایک انٹرویو میں ان کاکہناتھا کہ نگران وزیر خزانہ کی سربراہی میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے حجم کے تعین کے لئے ٹاسک فورس تشکیل دی جائے گی، یہ ٹاسک فورس پنشن فنڈز کے بہتر انتظام کے ساتھ ساتھ حکومتی اخراجات میں کمی اور ریونیو میں اضافہ کے لئے آپشنز پر غور کرے گی،عام انتخابات سینٹ انتخابات سے قبل ہوجانے چاہئیں۔ حکومتی اقدامات سے جلد بہتری آنا شروع ہوجائےگی۔ سیاسی ومعاشی استحکام انصاف سے آتا ہے،ہمیں دیکھنا ہوگا کہ سوسائٹی اور ریاست میں کن جمہوری رویوں کی اجازت ہونی چاہییے۔ ہم اس جگہ پر آگئے ہیں کہ ہم فیصلہ کریں کہ اس معاشرے نے کس طرح آگے بڑھنا ہے،معاشرے میں مثبت رویوں کے فروغ کے لئے فیصلے کرنا ہوں گے۔اداروں کے بہتر کام کرنے سے ملک ترقی کرتے ہیں۔ماضی کی غلطیوں کی بنیاد پر اپنے لئے رعایتیں مانگنے کا عمل درست نہیں ہے۔کوئی بھی ملک افراتفری،جلاﺅ گھیراﺅ اور انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا،معاشرے میں مثبت رویوں کے فروغ کے لئے فیصلے کرنا ہوں گے،ماضی قریب کے پرتشدد واقعات کو عوام نے مسترد کیا ہے۔ کسی جماعت کی ہار جیت میرا مسئلہ نہیں یہ لوگوں کا مینڈیٹ ہے وہ کس کو ووٹ دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان اپنا نکتہ نظر پیش کرے گا، اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اپنا نکتہ نظر پیش کرنا چاہیے۔دوسری جانب ڈالر کی بڑھتی قیمت و پاکستانی روپے کی بے قدری پر قابو پانے کیلئے وفاقی حکومت کی ہدایات پر ایف آئی اے نے کرنسی ایکسچینج کا غیرقانونی کاروبار کرنے والوں سمیت ہنڈی حوالہ اور ڈالر ذخیرہ کر کے مصنوعی قلت پیدا کرنیوالے عناصر کے خلاف گھیرا مزید تنگ کر دیا ہے۔ رواں سال جنوری سے لے کر ابتک ایف آئی اے نے کرنسی کے غیرقانونی کاروبار و ہنڈی حوالہ میں ملوث عناصر کے خلاف کریک ڈاو¿ن کے دوران ملک بھر میں مجموعی طور پر 257چھاپے مار کر 361ملزمان کو گرفتار کیا جبکہ ہنڈی حوالہ و کرنسی ایکسچینج کا غیر قانونی کاروبار کرنیوالے ملزمان کے خلاف 250مقدمات درج کئے گئے۔ہنڈی حوالہ و کرنسی کا غیر قانونی کاروبار کرنے والے ملزمان کے خلاف 30انکوائریاں بھی رجسٹرڈ کی گئیں، انکوائریز کے دوران الزامات ثابت ہونے پر 26مزید مقدمات درج کئے گئے۔کریک ڈاو¿ن کے دوران رواں سال جنوری سے ابتک مجموعی طور پر 4لاکھ 78ہزار 620امریکن ڈالر برآمد کئے گئے جبکہ چھاپوں کے دوران 177ملین روپے کی دیگر غیر ملکی کرنسی بھی برآمد کی گئی، جنوری سے جاری کریک ڈاﺅن کے دوران مجموعی طور پر 3بلین روپے سے زائد کی غیرملکی کرنسی برآمد ہوئی۔ادھرضلع قلعہ عبداللہ میں بھنگ کی کھڑی فصل اور فیکٹریوں کیخلاف آپریشن کا آغازکردیا گیا ، 3 دنوں میں 1100 کلو گرام چرس 6 فیکٹریاں اور درجنوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ جبکہ 11 افراد گرفتار کرلیاگیا۔وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ سمگلنگ میں ملوث عناصر اور ذخیرہ اندوزوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی،برائی کیخلاف انتہا تک جائیں گے،اس میں ملوث عناصر کے خلاف بھرپور کارروائی کریں گے اور انہیں قرارواقعی سزائیں دیں گے۔سیکورٹی فورسز نے جہاں جہاں آپریشن کیا ، چرس برآمد کی ، فیکٹریاں سیل کیں اور درجنوں ایکٹر پر کھڑی فصلیں تباہ کیں ، سوال یہ ہے کہ کیا انتظامیہ اس سے بالکل لاعلم تھی اور انہیں پتہ نہیں تھا ، کیا اس کا جواب کسی کے پاس ہے؟
چترال میں دہشت گردوں کے خلاف ایک اور جھڑپ
چترال میں ایک بار پھر سیکورٹی فورسز اور دہشتگردوں کے درمیان میں ایک معرکہ رونما ہوا ہے جس میں 7دہشتگردوں کو دلیری کے ساتھ واصل جہنم کردیا گیا ہے ، ان دہشت گروں کے سرپرستوں کو بھی پکڑا جانا چاہیے تاکہ انہیں علاقے میں کوئی گھر پناہ نہ دے ، ان ہی صفحات میں ہم کئی بار عوام الناس سے اپیل کرچکے ہیں کہ و ہ آس پاس کڑی نظر رکھیں اور اگر انہیں کوئی مشکوک سرگرمیوں میں ملوث شہری نظر آتا ہے تو فوری طور پر اپنی سیکورٹی فورسز کو اس بارے اطلاع دے تاکہ دہشتگردوں کا قلع قمع کیا جاسکے کیونکہ جب تک عوام اپنی سیکورٹی فورسز کا ساتھ نہیں دیں گے اس وقت تک آپریشن کی مکمل کامیابی کے امکانات کم ہوتے ہیں ، اس لیے عوام کا اپنے اداروں کے پیچھے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کھڑے رہنا ضروری عمل ہے ۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق چترال کے علاقے ارسون میں سکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور سکیورٹی فورسز نے موثر طریقے سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی۔ شدید فائرنگ کے تبادلے میں 7دہشت گرد ہلاک جبکہ 6 شدید زخمی ہوگئے۔ علاقے میں ممکنہ دیگر دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے کلیئرنس جاری ہے۔ علاقہ مکینوں نے سکیورٹی فورسز کے آپریشن کو سراہا اور ملک سے دہشتگردی کی لعنت کے خاتمے کے لیے بھرپور تعاون کا اظہار کیا۔
ایرانی تیل کی سمگلنگ میں سرکاری افسران کے ملوث ہونے کا انکشاف
کوئٹہ کے راستے ایرانی تیل اور دیگر اشیا کی سمگلنگ کا سلسلہ برسہا برس جاری ہے مگر اس کی روک تھام کیلئے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا گیا ، کوئٹہ میں ایرانی تیل کھلے عام فروخت ہوتا ہے بلکہ یہ پنجاب میں راجن پور، ڈی جی خان ، ملتان تک اس تیل کی آمد کا سلسلہ نہایت کامیابی سے جاری ہے ، سرکاری افسران باضابطہ طور پر اپنا حصہ وصول کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری ہے ، اب تو یہی پتہ چلا ہے کہ اس میں سرکاری افسران کے سرپرستی جاری ہے اور اب تو ان افسران کی لسٹ بھی وزیر اعظم ہاو¿س میں جمع کروادی گئی ہے ، رپورٹ کے مطابق ایرانی تیل کے کاروبار میں 29سیاستدان بھی ملوث ہیں، تیل کی اسمگلنگ سے ہونے والی آمدنی دہشت گرد بھی استعمال کرتے ہیں،نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے لیے سول اداروں نے ایرانی تیل کی اسمگلنگ سے متعلق رپورٹ وزیراعظم ہاﺅس میں جمع کروادی،ایرانی تیل کی اسمگلنگ میں 90سرکاری اہلکارورں اور 29سیاستدانوں کی طرف سے سہولت کاری کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ایران سے پاکستان کو سالانہ 2ارب 81کروڑ لیٹر سے زیادہ تیل اسمگل ہوتا ہے، جس سے ملک کو سالانہ 60ارب روپے سے زیادہ نقصان ہورہا ہے،پاکستان میں 722کرنسی ڈیلر حوالہ ہنڈی کے کاروبارمیں ملوث ہیں، سب سے زیادہ 205ڈیلر پنجاب،خیبرپختونخوا میں 183، سندھ میں 176، بلوچستان میں 104، آزاد کشمیر میں 37اور اسلام آباد میں 17ڈیلرز حوالہ ہنڈی کا کاروبار کر رہے ہیں، اب اداروں کا فرض بنتا ہے کہ ایسے عناصر کیخلاف کڑی اور سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔
اداریہ
کالم
سمگلنگ کے روک تھام کیلئے نگران حکومت کے اقدامات
- by web desk
- ستمبر 12, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 386 Views
- 2 سال ago
