کالم

ہماری بیسویں صدی یعنی اقبال اور فیض

ہم پاکستانیوں کے جملہ معائب و محاسن کا نفسیاتی پس منظر بیسویں صدی کے احوال سے جڑا ہوا ہے ۔ایشیائی لوگ بوجوہ تاریخ کا مطالعہ بھی شخصیات کے حوالے سے کرتے ہیں ، حالانکہ تاریخ واقعات کے بہا اور شخصیات کے طرز عمل اور ردعمل کا نہیں ، ان تمام عوامل سے حاصل ہونے والی بصیرت کا نام ہے ۔ ویسے بھی ،جیسا کہ اقبال (1877…1938)نے فارسی مثنوی اسرار خودی کے اردو دیباچے میں لکھا ہے کہ ہماری زندگی اپنے گردوپیش رونما ہونے والے واقعات کا مشاہدہ کرنے اور ان کے صحیح مفہوم کو سمجھ کر عمل پیرا ہونے پر منحصر ہے ،مگر ، اقبال سوال اٹھاتے ہیں کہ ؛ہم میں سے کتنے ہیں جو اس قوت سے کام لیتے ہیں جس کو میں حس واقعات سے تعبیر کرتا ہوں۔وہ کہتے ہیں کہ انگریز قوم کی حس واقعات دیگر اقوام کی نسبت زیادہ تیز اور ترقی یافتہ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ کوئی فلسفیانہ نظام ،جو واقعات متعارفہ کی تیز روشنی کا متحمل نہ ہو سکتا ہو،انگلستان کی تاریخ میں آج تک مقبول نہیں ہوا ۔اچھا دوسری طرف ہم ایشیائی لوگوں کا مزاج بوجوہ واقعات و حوادث کو ان کے اسباب و علل کی بجائے پہلے سے تحریر شدہ تقدیر کا نتیجہ سمجھنے اور تاریخ کے بہا کو شخصیات کے حوالے سے دیکھنے یا تجزیہ کرنے کی طرف مائل رہتا ہے ۔شخصیات کا انتخاب ہم اپنی عقیدت یا عقیدے کی مدد سے کرتے ہیں ۔تاریخ فہمی اور حوادث شناسی کا یہ کوئی کامل اسلوب ہرگز نہیں ہے ۔لیکن بعض اوقات چند ایسی شخصیات اپنے کردار اور اس کی دیرپا تاثیر کی بدولت ایسا مقام حاصل کر لیتی ہیں کہ جن کو نشان راہ بنا کر ہم تاریخ کے مطالعے اور تجزیے کی کوشش کر سکتے ہیں ۔یہاں پاکستان میں ہماری اجتماعی ذہنی زندگی پر اثرانداز ہونے والے جملہ رجحانات کی صورت گری میں بیسویں صدی کے احوال کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔بیسویں صدی کی پہلی چار دہائیاں علامہ محمد اقبال کی خیال کی جا سکتی ہیں ۔ برصغیر کی مسلم کمیونٹی کی ذہنی ،نفسی، معاشرتی ، معاشی ، سیاسی اور روحانی زندگی کا ” روزنامچہ ” اقبال کی تحریری مساعی سے سامنے آتا ہے۔اسی طرح اور اسی سے متصل بیسویں صدی کی بقیہ چھ دہائیوں کی نمائندگی فیض احمد فیض کرتا ہے۔فیض احمد فیض (1911 تا 1984) کے تجربات و مشاہدات اقبال سے مختلف رہے ۔نقش فریادی کی اشاعت کے صرف چھ سال کے بعد ایک آزاد و خودمختار ملک وجود میں آ گیا تھا وہ بات جو اقبال کے ہاں ایک تجویز اور خواب کی طرح سے تھی؛ وہ فیض احمد فیض کے سامنے حقیقت بن کر آگئی ۔اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ علامہ اقبال نے اس علحدہ آزاد و خودمختار ریاست کا قیام تجویز کیا تھا ، تو امر واقعہ یہ ہے کہ اس تجویز نے اقبال کی رحلت کے قریبا نو سال کے بعد حقیقت کا روپ اختیارکیا ۔ قیام پاکستان کے وقت فیض احمد فیض چھتیس سال کے جوان تھے اور انہوں نے اپنی عمر کے بقیہ سینتیس برس اس نوزائیدہ ریاست میں ایک شہری کے طور پر گزارنے کا وہ تجربہ حاصل کیا،جو بہرحال علامہ اقبال کے حصے میں نہیں آ سکا ۔ نوزائیدہ مملکت میں ایک محب وطن شہری کے طور پر فیض احمد فیض کا پہلا بڑا تجربہ پابند سلاسل ہونے کا تھا۔اگر ایک طرف اقبال ایک غلام ملک میں شناخت اور کمزور معیشت جیسے مسائل میں گھری کمیونٹی کے لیے راہ عمل تجویز کر رہے تھے۔ اسی سے متصل عہد میں فیض احمد فیض نے ایک آزاد و خودمختار مملکت کے شہری کے طور پر ہماری اجتماعی ذہنی روداد کو قلمبند کیا۔ نائبین سلطنت برطانیہ کی منشا کے مطابق دفاع کی تنظیم اور ترجیحات کے تعین کی بجائے ایک آزاد و خودمختار دفاعی نظم و نسق کی تیاری کے خواب ، روادار اور فلاحی ریاست کے عوض ایک مذہبی معاشرے اور سلامتی کے خطرات سے گھری ریاست کے تصورات کی مزاحمت، فیض نے بطور صحافی ، بطور استاد اور بطور شاعر اپنے حصے کی جدوجہد کی اور اس جدوجہد کی پوری قیمت بڑے خلوص سے ادا کی۔وہ اپنی کوشش اور اس کے مآل پر کبھی نادم نہیں ہوئے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام نقش فریادی تو اقبال کی وفات کے قریبا دو سال بعد 1941 میں شائع ہو چکا تھا ۔فیض کے بقیہ شعری آثار قیام پاکستان کے بعد بہ ترتیب ذیل ہمارے سامنے آتے ہیں۔دست صبا ۔ 1952 ، زندان نامہ ۔ 1956،دست تہہ سنگ۔ 1963،سر وادی سینا۔1971 ،شام شہریاراں۔ 1978۔میرے دل میرے مسافر۔ 1980 ،غبار ایام۔1982 ،سارے سخن ہمارے.1984(کلیات فیض کا عالمی ایڈیشن، لندن)اور نسخہ ہائے وفا۔1984کلیات فیض کا پاکستانی ایڈیشن۔ فیض احمد فیض اپنے ذہنی ارتقا کی مکمل روداد نقش فریادی میں قلمبند کر چکے تھے۔آغاز شباب کی تحیئر آمیز قلبی وابستگیاں، غلام ملک کے نوجوانوں کے جملہ ذہنی دبا ،غیر یقینی مستقبل کا درد، اور پھر محبت اور راحت کے تصورات کی تازہ تعبیرات اور نئی دنیا جس میں محبوب اور رقیب دونوں کے ساتھ جدا قسم کا معاہدہ عمرانی تعین ہوتا ہے ۔اس مجموعہ کلام کی اشاعت کے ٹھیک چھ سال بعد نئی مملکت وجود میں آجاتی ہے ،گویا خواب حقیقت کا روپ دھار چکے تھے ۔لیکن ذرا رکئے ،یہ صبح آزادی تھی یا شام زندان۔حب وطن ،جس کے مست خواب رہنے کا گلہ حسرت موہانی کو بھی رہا ، وہ فیض احمد فیض کے لیے ایک زندہ و بیدار محبت کی طرح ہمیشہ تازہ اور متحرک رہی ۔اس مملکت کے قیام نے آرزو اور آزادی کے بند کواڑ کھول دینے تھے ،پر فیض کو جلد ہی اندازہ و ادراک ہو گیا کہ ابھی گرانءشب میں کمی نہیں آئی ۔خطبہ الہ آباد کا سب سے دلچسپ اور حساس حصہ وہ ہے جس میں علامہ اقبال نے ہندوستان کے متعلق برطانیہ کی دفاعی حکمت عملی پر شدید اعتراضات کیے تھے ۔انہوں نے سائمن کمیشن رپورٹ کی اس رائے پر سخت اعتراض کیا تھا جس کے مطابق "ہندوستان اور برطانیہ کا تعلق کچھ ایسا ہے کہ ہندوستان کے مسلہ دفاع کو نہ اب ، نہ مستقبل قریب میں محض ہندوستانی مسلہ تصور کیا جا سکتا ہے۔دفاعی عساکر کا نظم نسق ہمیشہ نائبین سلطنت کے ہاتھوں میں رہنا چاہیئے۔” اقبال نے دفاع ہندوستان کے لیے سلطنت برطانیہ کی اس حکمت عملی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ انگریز جان بوجھ کر مقامی فوجیوں اور افسران کو نہ تو اعلی تربیت کے مواقع دیتے ہیں اور نہ ہی اعلیٰ کمیشنڈ عہدے ۔ اس کے پیچھے انگریزوں کی یہ سوچ کام کر رہی تھی کہ برطانوی فوجی افسروں کی مدد کے بغیر ہندوستانی اپنی سرحدوں کی حفاظت نہیں سکتے ۔اقبال نے اس طرز و فکر و عمل پر شدید اعتراض کیا تھا۔فیض احمد فیض کے لیے راولپنڈی شہر اور اس شہر کی عسکری نفسیات کا بخوبی علم تھا ۔ 1946 میں تقسیم کے اعلان کے بعد وائسرائے لارڈ ویول راولپنڈی میں دربار کرنے آیا تھا ،تو فیض احمد فیض بھی اپنی منصبی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے اہم اجلاسوں تک رسائی رکھتے تھے ۔اسی دربار کے دوران اور بعد میں ہونے والی گفتگووں سے فیض سمجھ چکے تھے کہ اب انگریز اور امریکن شمالی خطرے یعنی سویت یونین سے ممکنہ جنگ کی پیش بندی پر متوجہ ہیں ۔ملک تقسیم ہونے جا رہا تھا ،لیکن ان مباحث میں ایسا کوئی سراغ نہ ملا کہ انگریز شمالی خطرے کے سامنے بند باندھنے کے علاہ بھی کچھ سوچ رکھتے ہیں۔ دفاعی معاملات پر گفتگو کرنے کی جو آزادی ہندوستان میں علامہ اقبال کو میسر تھی ، وہ آزاد و خود مختار مملکت پاکستان میں فیض احمد فیض کو میسرنہ آ سکی۔اور نو آزاد مملکت کی دفاعی عساکر کا نظم نسق "نائبین سلطنت” کے ہاتھوں سے آزاد کرانے کے تصور پر محض گفتگو کرنے کے عوض فیض احمد فیض کو ایک مفروضہ راولپنڈی سازش کیس میں ماخوذ کر کے حوالہ زندان کر دیا گیا ۔گویا فیض احمد فیض کی آزادی کا آغاز ہی پابندی و گرفتاری سے ہوتا ہے۔ فیض احمد فیض یقین رکھتے تھے کہ "۔۔حیات انسانی کی اجتماعی جدوجہد کا ادراک،اور اس جدوجہد میں حسب توفیق شرکت، زندگی کا تقاضا ہی نہیں ،فن کا بھی تقاضا ہے۔فن اسی زندگی کا ایک جزو اور فنی جدوجہد اسی جدوجہد کا ایک پہلو ہے۔” اپنے اسی یقین کو فیض نے اپنی طاقت بنایا ،سوچنا اور لکھنا ہی گویا اب زندگی کی علامت تھی۔اور یہی علامت فیض کے دوسرے مجموعہ کلام دست صبا کی صورت 1952 میں سامنے آئی۔جس طرح علامہ اقبال نے بیسویں صدی کے پہلے اڑتیس سال تک اپنی کمیونٹی کی بقا اور تحفظ کےلئے اپنے دائرہ فکرو عمل میں سعی کی ،اسی طرح قیام پاکستان کے بعد کے سینتیس سال تک فیض احمد فیض نے ایک نو آزاد مملکت میں امن ، سلامتی ،آزادی اور مساوات کےلئے جدوجہد میں مصروف رہے ۔فیض کا اپنا انداز اور جدا آہنگ تھا۔ شور سے زیادہ سرگوشی دل پہ اثر کرتی ہے۔اسی حقیقت نے فیض احمد فیض کو اپنے معاصرین پر فوقیت دی ہے۔ان کے معاصرین کی انقلابی شاعری بلند آہنگ اور پر شور ہے۔لیکن یہ فیض ہے جو آج بھی نژاد نو کو ایک مختلف اور بعض اوقات متنوع تناظر میں بھی متاثر اور متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔اقبال کو بیسویں صدی کی پہلی چار دہائیوں میں نور فراست سے تہی نظر ملاں نے اپنی دکانداری کے لیے خطرہ سمجھ کر فتاوی تکفیر کا عنوان بنائے رکھا، لیکن اقبال ملا کو کبھی خاطر میں نہیں لائے۔
مجھ کو تو سِکھا دی ہے افرنگ نے زِندیقی
اس دور کے ملا ہیں کیوں ننگِ مسلمانی!
ملا کو جو ہے ہِند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!
ملا کی نظر نورِ فراست سے ہے خالی
بے سوز ہے میخان صوفی کی مئے ناب
میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں ملا ہوں غازی
قیام پاکستان کے بعد کی چار دہائیوں میں ملاں نے یہی سلوک فیض احمد فیض کے ساتھ بھی روا رکھا۔ ملاں کو آتش و آہن کی سرپرستی بھی حاصل تھی ، وہ فیض کو سرخا ، ملحد ، وطن دشمن اور پتہ نہیں کیا کیا نہ کہا کیے، فیض زندان بھی گئے ،جلا وطن بھی رہے ۔جلاوطنی بھی زندانی ہی کی ایک قسم خیال کی جا سکتی ہے ۔لیکن نہ تو اقبال ملا کو خاطر میں لائے،نہ فیض احمد فیض نے ملاں کے طعن کو کوئی اہمیت دی ۔وجہ یہ ہے کہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ
مے خانوں کی رونق ہیں کبھی خانقہوں کی
اپنا لی ہوس والوں نے جو رسم چلی ہے
دلدارءواعظ کو ہمیں باقی ہیں ورنہ
اب شہر میں ہر رند خرابات ولی ہے
فیض احمد فیض اکیسویں صدی کے نوجوانوں میں اپنے تحمل ، خلوص، سچائی اور بے ریائی کے باعث مقبول اور موثر ہے۔فیض احمد فیض لاکھ آرزوں اور تمناں سے حاصل کردہ آزاد ریاست میں "اطاعت "کے معنی سے آگاہ ہوا ، اس نے نامساعد حالات میں کمال کے” ضبط "کا مظاہرہ کیا ،کچھ یہی وجہ ہے کہ وہ اقبال کے درجات خودی کی تیسری منزل” نیابت الہی ” کے حقیقی معنی کی طرف رہنمائی کرتا دکھائی دیتا ہے۔یہ رہنمائی کیا رنگ لاتی ہے، ہم دیکھیں گے۔لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri