اداریہ کالم

آئی ایم ایف اورپاکستا ن کے درمیان ڈیڈلاک برقرار

اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستانی وفد اورآئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات ابھی تک نہ تو کامیابی کی منزل سے ہمکنار ہوئے ہیں اورنہ ہی ہم انہیں نتیجہ خیزکہہ سکتے ہیں کیونکہ آئی ایم ایف کی جانب سے نہایت کڑی شرائط عائد کی جارہی ہیں جس میں پٹرولیم مصنوعات ، بجلی ،گیس کی قیمتوں میں اضافے کامطالبہ کیاجارہاہے اس کے ساتھ ساتھ دیگراشیاءپر بھی ٹیکس بڑھانے کے مطالبات ہیں اور حکومت اب اس بات کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ مزید ٹیکس بڑھائے کیونکہ اب اگرمزیدٹیکس بڑھائے گئے تو عوام کے شدیدردعمل کاسامناکرناپڑ سکتا ہے ۔غربت ،مہنگائی کے مارے عوام مزید ٹیکس کی بھرمار سے تنگ آکرسڑکوں پر نکل سکتے ہیں اور اپنااحتجاج ریکارڈ کراسکتے ہیں،اس احتجاجی کیفیت کی صورتحا ل کچھ بھی ہوسکتی ہے یہ ردعمل نومئی کی طرح بھی ہوسکتا ہے اورردعمل سامنے آسکتاہے یاپھرانیس سوستتر کی تحریک کاردعمل بھی آسکتا ہے اس سے بچنے کےلئے پاکستان کی بھرپورکوشش ہے کہ ٹیکس کم سے کم لگائے جائیںتاکہ آئی ایم ایف کے اہداف بھی پورے ہوجائیںاورپاکستانی مقصد بھی حل ہوجائے تاہم اخباری اطلاعات کے مطابق ابھی تک فریقین میں مذاکرات کامیاب نہیں ہوپائے۔ایک خبر کے مطابق مالی اعدادوشمار پر پاکستانی مذاکرات کاروں اور آئی ایم ایف کے مابین اختلاف ابھر آیا ہے لیکن حکومت نے تاحال موجودہ مالی سال کے باقی ماندہ عرصے کے دوران کسی ضمنی بجٹ کے ذریعے کوئی اضافی ٹیکس لگانے میں تذبذب کا مظاہرہ کیا ہے ۔بجٹ خسارے کے ہدف پر نظر ثانی ممکن ہے لیکن آئی ایم ایف پاکستانی حکام سے کہہ رہا ہے کہ وہ بنیادی سرپلس کو یقینی بنانے پر عمل پیرا رہیں ۔آئی ایم ایف نے پنجاب کی مالی حیثیت کے حوالے سے تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مطلوبہ آمدن اکٹھی کرنے اور اپنے بے لگام اخراجات کو لگام ڈالنے میں ناکام رہا ہے،بات چیت کے دوران یہ چیزبھی سامنے آئی کہ ایف بی آر کو پنجاب میں ٹیکس جمع کرنے کے اختیارات تفویض کیے جانے چاہئیں اور جب یہ جمع ہوجائیں تو پھر یہ محصولات جمع کرنے کی فیس کاٹ کرملک کے اس سب سے زیادہ آبادی والے صوبے کے حوالے کرنے چاہئیں ۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ مالی وفاقیت کو بہتر بنایا جائے اور اس نے تجویز دی ہے کہ مرکز اور صوبوں کے اتفاق رائے سے عبوری بنیادوں پر این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی کی جائے۔ فی الوقت ٓئی ایم ایف صوبوں کی وفاقی حکومت کے ساتھ مفاہمت کی یاداشت بہتر بنانے سمیت بہتررابطہ کاری کے ذریعے مالی سال 2024 کے بجٹ اہداف کی ضمانت اور ا س کے مکمل نفاذ کاخواہاں ہے۔ پنجاب حکومت نے اس حوالے سے مفاہمت کی ایک یاداشت کے ذریعے اپنے اخراجات میں 115 ارب روپے کی کٹوتی کا وعدہ کررکھا ہے جس سے مالی سال 2024 کے باقی ماندہ عرصے میں سرپلس حاصل کیاجائےگا۔ صوبائی حکومتوں نے ایک عشرہ طویل عرصے میں جمع ہونے والے اشیا کے قرض کی توثیق اور ایک نظام الاوقات کے ذریعے اس قرض کے نفاذ اور بالآخر اس کی ادائیگی پر آمادگی کا اظہار کیا ہے ۔ یہ قرض صوبائی محکمہ ہائے خوراک نے پیدا کیا ہے جو حکومتی مالیاتی حدود سے باہر نکل کر کام کرتے رہے۔تاہم آئی ایم ایف کا یہ مطالبہ کہ پرچون فروشوں کےلیے ایک سادہ ٹیکس اسکیم لائی جائے سن کر وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کو آخری لمحے میں ایک اور اجلاس میں شرکت کےلئے بھاگنا پڑا۔ وہ مالی محاذ پر آئی ایم ایف کے ساتھ ہونےوالے جمعہ کے اجلاس میں شریک نہیں ہوپائے۔چنانچہ اب انہیں پرچون فروشوں پر ٹیکس عائد کرنے کی اسکیم کے حوالے سے حکومتی ارادوں کے حوالے سے آگاہ کرنا ہوگا ۔ حکومت پرچون فروشوں پر ٹیکس عائد کرنے کے حوالے سے پہلے ہی گزشتہ بجٹ کے دوران ٹیکس قوانین میں یہ اختیار حاصل کرچکی ہے۔ اس اسکیم میں پارلیمنٹ سے کسی قانونی منظوری کی ضرورت نہیں ہوگی لیکن نواز لیگ کی قیادت میں چلنے والی حکومت اپنی سیاسی ساکھ بچانے کےلیے دکانداروں پر ٹیکس لگانے کی منظوری دینے میں متذبذب نظر آرہی ہے۔ آئی ایم ایف نے مارچ سے جون کے چار ماہ کے دوران مختلف تخمینے دکھائے جن کے بارے مین اس کا دعویٰ ہے کہ یہ وزارت خزانہ نے شیئر کیے ہیں تاہم ایف بی آر نے وضاحت کی ہے کہ وہ 9415ارب روپے کا سالانہ ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرلے گااور اس حوالے سے کسی ضمنی بجٹ کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایک بھرپور مباحثے کے بعد آئی ایم ایف نے ایف بی آر سے کہا کہ وہ اپنا ماہانہ ہدف وقت پرشیئر کریں اور اگر ضرورت پڑے تو اضافی ٹیکس کے اقدامات لیے جائیں۔آئی ایم ایف نے ایف بی آر کےلئے یہ لازمی قرار دے دیا ہے کہ وہ اپریل تک حاصل ہونے والے محصولات 3 مئی 2024 تک شیئر کرے۔ آئی ایم ایف نے ایف بی آر کے سرکردہ افسران کو یاددلایا کہ ایف بی آر نے صوبائی دارلحکومتوں اور وفاقی دارلحکومت میں گھرگھرجاکر نان فائلرز پرچون فروشوں کی رجسٹریشن کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس منصوبے کے تحت کراس ریفرنسنگ کے ذریعے بجلی کے میٹر کے ڈیٹا کے ساتھ فائلنگ کرنا مقصود تھا تاکہ ایف بی آر ٹیکس سے بچنے کے حربوں کا پتہ چلاسکے اور جب ضرورت ہو تو اس کا آڈٹ کر سکے۔ ایف بی آر کا منصوبہ ہے کہ وہ سخت نگرانی اور یک بیک آڈٹ کے ذریعے اپنے حفاظتی اقدامات نافذ کرے تاکہ ادائیگیوں اور قدر کے معاملات کی درستی کی تصدیق ممکن ہوسکے۔ اس اسکیم کو لانچ کرنے کے حوالے سے ایف بی آر کا ارادہ یہ تھاکہ اس میں فیلڈ افسران کی صوابدید کم سے کم ہو اور وہ تعین قدر اور تخمینوں کو تبدیل نہ کرسکیں تاکہ ان اقدامات سے ٹیکس آمدن کو تحفظ دیاجاسکے۔ دہری ٹیکسیشن سے بچنے کیلئے ماہانہ ایڈوانس ٹیکس ادائیگیاں اس اسکیم کے تحت ہوں گی جو ریٹرن فائلنگ کے وقت حتمی انکم ٹیکس واجبات کو ختم کردیاکریگا لیکن اس قسم کی ایڈوانس ادائیگیوں کا کوئی ریفنڈ نہیں ہوگا۔ مزید برآں ایف بی آر نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہے کہ وہ طے شدہ کارکردگی کے اشاریوں پر آئی ایم ایف کو ماہانہ ڈیٹا بروقت دیاکرے گا ۔غیر محصولاتی آمدن کے ہدف کے حوالے سے آئی ایم ایف اور وزارت خزانہ کے تخمینوں مین بہت فرق پایاجاتا ہے۔ آئی ایم ایف نے بڑھتے ہوئے اخراجات پر بشمول قرض کی ادائیگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات سمیت دیگر اخراجات کا حوالہ بھی دیاجس کے نتیجے مین وفاقی حکومت سے بجٹ خسارے کا طے شدہ ہدف بڑھ رہا ہے اور جس پر نظر ثانی کرنا پڑ سکتی ہے اور جو جی ڈی پی کی 7.9 کی شرح تک پہنچ سکتا ہے۔
وزیراعظم کاجی ایچ کیوکادورہ
عسکری پیشہ وارانہ سرگرمیوں سے آگاہی حاصل کرنے اوردشمن کے مقابلے کےلئے جاری تیاریوں کوجاننے کےلئے عسکری حکام اورسول حکومت میں رابطہ کار رہتاہے اکثرسیاستدانوں کو اور حکومتیںاعلیٰ عہدیداروں کو بلاکرجی ایچ کیومیں بریفنگ دی جاتی ہے تاکہ قوم دفاعی تیاریوں کے حوالے سے آگاہی حاصل کرتی رہے اورعوامی نمائندے اس حوالے سے باخبررہیں۔ چنانچہ اسی مقصد کےلئے گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف نے کابینہ کے اہم ارکان کے ہمراہ جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی کا دورہ کیا جہاں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ان کا استقبال کیا اور گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔وزیراعظم شہباز شریف کی آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے ملاقات بھی ہوئی۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو سلامتی کی موجودہ صورتحال، خطرات سے نبرد آزما ہونے کی تیاریوں سے آگاہ کیا گیا۔اس موقع پر وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان نے عسکری قیادت کے ساتھ قومی سلامتی، علاقائی استحکام اور فوجی تیاریوں کے امور پر بات چیت کی اور وزیراعظم کو موجودہ سیکیورٹی ماحول، خطرے کے اسپیکٹرم، سیکیورٹی خطرات سے نمٹنے اور انسداد دہشت گردی کی جاری کارروائیوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی ۔وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کی پیشہ وارانہ مہارت، آپریشنل تیاریوں اور قربانیوں کو سراہا اور ملک کی علاقائی سالمیت کے تحفظ اور امن و استحکام کو یقینی بنانے میں پاک فوج کے عزم کو سراہا۔ حکومت مسلح افواج کی آپریشنل تیاریاں یقینی بنانے کیلئے تمام درکار وسائل دیگی، پاکستان کا عروج ملک کا مقدر ہے، پاکستان کا پرامن عروج یقینی بنانے کیلئے مسلح افواج کے کردار کی اہمیت کو کم نہیں کیا جاسکتا۔ پاک فوج قوم کی توقعات پر پورا اترتی رہے گی اور پاکستان کو درپیش سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے میں حکومت کی بھرپور حمایت کریگی۔سویلین اور عسکری قیادت نے قومی مفادات کو برقرار رکھنے، خوشحال اور محفوظ پاکستان کےلئے ملکر کام کرنے کے عزم کا بھی اعادہ کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے