اداریہ کالم

سیاسی ڈائیلاگ خوش آئند

idaria

ملک کی تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کا معاملہ زیرسماعت ہے، اگلے روزوزارت دفاع کی جانب سے ملک کی تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کی درخواست پر سماعت کرنے کے بعد عدالت نے درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماو¿ں کو طلب کیا تھا۔جس پرگزشتہ روز سماعت ہوئی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قوم میں اضطراب ہے، قیادت مسئلہ حل کرے تو سکون ہو جائے گا، عدالت حکم دے تو پیچیدگیاں بنتی ہیں، سیاسی قائدین افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کریں تو برکت ہو گی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔اس بینچ کے خلاف حکومتی اتحاد نے بہت دھول اُڑائی لیکن عدالت نت نہایت تحمل سے کام لیا اور سیاسی جماعتوں ایک بار پھر موقع دیا کہ وہ مل بیٹھ کر طے کریں تو برکت ہو گی۔گزشتہ روز کی سماعت پرچیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سراج الحق کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، آپ نے نیک کام شروع کیا اللہ اس میں برکت ڈالے، عدالت اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالے گی۔اسی طرح پی ٹی آئی کی جانب سے شاہ محمود قریشی عدالت میں پیش ہوئے جن سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ عدالت کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عدالت کے ہر لفظ کا احترام کرتے ہیں، ملک نے آئین کے مطابق ہی آگے بڑھنا ہے، ہمیشہ راستہ نکالنے اور آئین کے مطابق چلنے کی کوشش کی۔ شاہ محمود نے مزید کہا کہ قوم نے آپ کا فیصلہ قبول کیا ہے، دیکھتے ہیں کی حکومت کا کیا نقطہ نظر ہے، ہماری جماعت آئین کے تحفظ پر آپ کے ساتھ ہے۔ سپریم کورٹ میں ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ کرانےکی درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آجائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے، اگر سیاسی جماعتیں انتخابات کی تاریخ بدلنا چاہتی ہیں تو عدالت ان کیساتھ ہے، اٹارنی جنرل عدالتی حکم عدولی کے نتائج سے متعلق حکومت کو آگاہ کریں تاکہ اسکا تدارک ہو سکے اور حکومت انتخابات کے انعقاد کیلئے 27ا پریل تک 21ارب روپے جاری کردے، الیکشن کمیشن کوکیوں لگتا اب صورتحال بہت خراب ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا فنڈ جاری کرنے کا حکم دیا تھا پیچھے نہیں ہٹیں گے، سماعت کے دوران وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور انکی کابینہ پر آئینی ذمہ داری ادا نہ کرنے اور عدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر اسکے قانونی و آئینی نتائج کیلئے تیار رہنے کا عندیہ دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو دونوں صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کے انعقاد کیلئے 21ارب روپے کے فنڈز جاری کرنے کیلئے ایک بار پھر 27ا پریل تک کی مہلت دیدی ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ منجمد سیاسی نظام چلنا شروع ہو رہا ہے، 14 مئی کا وقت قریب آ چکا ہے لہذا اگر سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آجائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے، عدالت نے قراردیاہے کہ جمہوریت اسمبلی میں اکثریت کے اعتماد کا نام ہے، انتخابات کیلئے 21ارب روپے کی منظوری کے بل کے مسترد ہونے کے سنجیدہ نتائج ہیں، آئین کے مطابق وزیر اعظم کیلئے قومی اسمبلی میں اکثریت کا اعتماد لازمی ہے، قومی اسمبلی سے رقم کے بل کے مسترد ہونے کے سنگین آئینی نتائج ہیں اور بل مسترد ہونے کا ایک ممکنہ اثر یہ ہے کہ حکومت پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کھو چکی ہے۔ تاہم ڈیمانڈ مسترد ہونے کی صورتحال کو جلد تبدیل کیا جا سکتا ہے،عدالت نے اپنے حکمنامہ میں قرار دیا ہے کہ آئین اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 روز میں انتخابات کے انعقاد کا حکم دیتا ہے، سیاسی مذاکرات آئین سے متصادم نہیں ہونے چاہئیں،و زارت دفاع کی جانب سے کی گئی استدعا کوعدالت قبول نہیں کر سکتی ہے، عدالت نے الیکشن کمیشن کے موقف کو بھی مسترد کر تے ہوئے قراردیاہے کہ الیکشن کمیشن عدالتی کاروائی کو دوبارہ سے نکتہ آغاز پر لانا چاہتا ہے، فنڈز کی عدم فراہمی سے متعلق وزارت خزانہ کی رپورٹ کو بھی ناقابل قبول قرا ردیتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کی جانب سے فنڈز کی منظوری نہ ہونے کا مطلب یہ بھی ہے کہ وزیراعظم اور کابینہ،قومی اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں، عدالت نے قراردیاہے کہ انتخابات کیلئے فنڈز جاری کرنا وفاقی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے جسے ادا نہ کرنے اور عدالتی احکامات کی نافرمانی کے سنگین نتائج ہونگے۔ عدالت نے قرار دیاہے کہا انتخابات کیلئے سیاسی جماعتوں کی قیادت کو مذاکرات کا موقع دینے کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کا پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم ختم ہو گیا ہے ۔
قومی احتساب بل سینیٹ میں کثرت رائے سے منظور
سینیٹ نے تین حکومتی بل قومی احتساب ترمیمی بل 2023، مجموعہ ضابطہ دیوانی ترمیمی بل اور پاکستان میری ٹائم زونز بل 2023 کی اپوزیشن کے شدید احتجاج کے دوران کثرت رائے سے منظوری دیدی، اس دوران اپوزیشن خصوصا پی ٹی آئی کے سنیٹرز نے اپنا احتجاج جاری رکھا اور بل کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اڑاتے رہے اور چیئرمین ڈائس کی طرف پھینکتے رہے ایوان بالا نے پنجاب، خیبرپختونخوا انتخابات کےلئے فنڈز فراہمی سے متعلق بل مسترد کرنے کی قائمہ کمیٹی خزانہ کی سفارشات کثرت رائے سے منظور کر لیں۔ایوان بالا کے اجلاس کے دوران وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی احتساب ترمیمی بل 2023قومی اسمبلی سے منظور کردہ صورت میں پیش کرنے کی تحریک پیش کی تو اپوزیشن نے شور شرابہ شروع کر دیا ،اس پر اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا حکومت کی طرف سے عجلت میں بل پاس کرانے کی وجہ سے آج انہیں ایک اوربل لانا پڑا ہے ،پہلے این آر او ٹو بل لائے تھے ، اس وقت ان کو جلدی تھی کہ انہوں نے اپنے کیسز معاف کروانے تھے ، جو کھایاپیا تھا ہضم کرنے کی وہ کر لیا، اب ان کو سمجھ آ رہی ہے کہ اس کی کیا مشکلات آگے آئیں گی آگے سے کیا نئے راستے نکالنے پڑیں گے اب این آر او ٹو کا پارٹ ٹو لائے ہیںقانون سازی کی آڑ میں آئین کی دھجیاں بکھیر رہے اورپارلیمنٹ کا بھی مذاق بنا رہے ہیں، بل کو کمیٹی میں بھجوایا جائے تاکہ اس پر وہاں بحث ہو سکے اس پر چیئرمین سینٹ نے وزیر قانون سے کہا کہ کیا اس بل کو کمیٹی میں بھیجنا ہے جس پر وزیر قانون نے کہااس کی ضرورت نہیں ہے۔
چوہدری انوار الحق آزاد کشمیر کے بلا مقابلہ وزیر اعظم منتخب
تحریک انصاف فارورڈ بلاک کے امیدوار چوہدری انوار الحق آزاد کشمیر کے بلا مقابلہ وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ اسپیکر چوہدری انوار الحق نے بھی فارورڈ بلاک بنا کر وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ساتھ پاور شیئرنگ فارمولے پر طویل مذاکرات کئے جس کے بعد اپوزیشن کی دونوں جماعتوں نے چوہدری انوارلحق کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ اسپیکر چوہدری انوارلحق نے اپوزیشن سے معاملات طے پانے کے بعد جمعرات رات بارہ بجے کے بعد انتخابی شیڈیول جاری کیا جس میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے کےلئے 12:40 سے 12:55 تک کا صرف 15 منٹ کا وقت دیا گیا تھا۔ جبکہ وزیراعظم کے انتخاب کےلئے ایک بجکر 25 منٹ کا وقت دیا گیا تھا۔مقررہ وقت کے ختم ہونے تک ان کے مدمقابل کسی امیدوار نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے۔ جس کے باعث چوہدری انوار الحق بلامقابلہ وزیر اعظم آزاد کشمیر منتخب ہو گئے۔میں انوار الحق کو 52کے ایوان میں 48ووٹ ملے ۔یادرہے کہ آزاد جموں کشمیر کی وزارت عظمیٰ کا منصب ایک ہفتہ قبل سردار تنویر الیاس کی نااہلی کی وجہ سے خالی ہوا تھا جس پر نئے وزیر اعظم کے انتخاب کےلئے جوڑ توڑ جاری تھا، تاہم پی ٹی آئی اور اپوزیشن جماعتوں میں سے کسی کے پاس مطلوبہ اکثریت نہیں تھی جس کی وجہ سے وزیر اعظم آزاد کشمیر کا انتخابی عمل تاخیر کا شکار ہو رہا تھا۔آئینی تبدیلی سیاسی جماعتوںکا حق ہے ، سابق وزیراعظم کے نااہل ہونے کے بعد تمام سیاسی جماعتیں اتفاق رائے سے ایوان میں کسی کو بھی وزارت عظمیٰ کے عہدہ پرمنتخب کرسکتی ہیں۔ایک حقیقت تو یہ بھی ہے آزاد کشمیرمیں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد حالات تیزی سے خراب ہوئے ہیں۔دولت کے بل بوتے وزیراعظم کا عہدہ حاصل کرنے والی شخصیت اپنی غیرذمہ دار گفتگو کی وجہ سے توہین عدالت کی مجرم قرارپاتے ہوئے نااہلی کی سزا پا چکی ہے۔آزاد کشمیرمیں عوام کے حق میں اچھا نظم و نسق قائم رکھنا حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے