کالم

ایران پر امریکی حملہ عالمی تناظرمیں

ایران کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں امریکہ کی شمولیت کیا تیسری عالمگیر جنگ کا آغازہے ذہنوںمیں یہ سوال سلگنے لگے آخر اس جنگ کا منطقی انجام کیا ہوگا؟ تازہ ترین اطلاعات تو یہ ہیں کہ امریکہ نے ایران کی 3 ایٹمی تنصیبات فردو، نطنز اور اصفحان میں نیوکلیئر تنصیبات پر خوفناک حملہ کیا جس کے نتیجہ میں فردو ایٹمی تنصیب مکمل طور پر تباہ کردی گئی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ‘ایکس’ پر اپنے بیان میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی KB2بمبار طیاروں کو اہداف پر کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ دنیا میں کوئی اور فوج ایسا نہیں کرسکتی تھی، اب امن کا وقت ہے جس کے جواب میں ایران نے اتوار کی صبح اسرائیل پر حملے میں پہلی مرتبہ خیبر شکن میزائل استعمال کئے ایرانی میڈیا کے مطابق خیبر شکن میزائل 4 ٹن 500 کلوگرام وزنی اور ساڑھے 10 میٹر لمبا ہے، اس میزائل کا قطر 80 سینٹی میٹر اور وارہیڈ کا وزن 500 کلوگرام ہے جس نے اسرائیل کے مختلف شہروں۔ میں تباہی مچا دی ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل کے مستقل رکن امریکہ نے ایران کی پْرامن جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے اقوامِ متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون اور این پی ٹی کی سنگین خلاف ورزی کی ہے اقوامِ متحدہ کے ہر رکن ملک کو اس انتہائی خطرناک، غیر قانونی اور مجرمانہ طرزِ عمل پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے ان حملوںکی شدد مذمت کرنی چاہیے ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے تحت ایران اپنی خود مختاری، مفادات اور عوام کے دفاع کے لیے تمام آپشنز محفوظ رکھتا ہے ۔ پاکستان نے ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ امریکی حملے اسرائیلی حملوں کے سلسلے کا تسلسل ہیں، یہ حملے بین الاقوامی قانون کی تمام اقدار کی خلاف ورزی ہیں، ایران کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف جاری جارحیت سے کشیدگی اور تشدد میں بے مثال اضافہ ہوا ہے، مزید کشیدگی پورے خطے اور دنیا پر سنگین اثرات ڈالے گی، خطے میں کشیدگی میں مزید اضافے پر گہری تشویش ہے۔ ادھر سعودی عرب، کیوبا، وینزویلا، چلی، میکسیکو کی ایران پر امریکی حملے کی شدید مذمت ایران پر امریکی حملے کے بعد لاطینی امریکہ کے کئی ممالک نے واشنگٹن کی اس کارروائی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اسے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ کیوبا کے صدر میگل ڈیاز کینل نے امریکی بمباری کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک خطرناک اضافہ ہے جو انسانیت کو "ناقابل واپسی بحران” کی طرف دھکیل رہا ہے۔ چلی کے صدر گیبریل بورِک نے بھی امریکہ کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا۔ انہوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا: "چلی امریکہ کے اس حملے کی مذمت کرتا ہے، طاقت رکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اسے انسانیت کے طے کردہ قوانین کی خلاف ورزی میں استعمال کریں۔ چاہے آپ امریکہ ہی کیوں نہ ہوں۔” میکسیکو کی وزارت خارجہ نے تنازع کو کم کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا: "ہم اپنی پرامن خارجہ پالیسی اور آئینی اصولوں کے تحت خطے میں کشیدگی کم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ علاقائی ریاستوں کے درمیان پرامن بقائے باہمی کی بحالی ہماری اولین ترجیح ہے۔” وینزویلا کے وزیر خارجہ ایوان گِل نے ٹیلیگرام پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ:”وینزویلا امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی درخواست پر کی گئی اس بمباری کی سخت اور غیر مبہم الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ ہم فوری طور پر تمام دشمن کارروائیاں بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔” برطانیہ نے امریکی حملوں کی کھل کر حمایت کردی برطانوی وزیر اعظم سر کیر اسٹارمر نے ایران پر امریکی حملوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان حملوں سے تہران کے ایٹمی پروگرام سے لاحق خطرہ کم ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ (سابقہ ٹویٹر) پر جاری بیان میں ان کا کہنا تھا: "ایران کو کبھی بھی ایٹمی ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔” انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال اب بھی نازک ہے اور خطے میں استحکام برطانیہ کی اولین ترجیح ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے ایران پر زور دیا کہ وہ دوبارہ سفارتی مذاکرات کی میز پر واپس آئے تاکہ اس بحران کا پْرامن حل نکالا جا سکے۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی جانب سے محتاط ردعمل آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے بھی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سفارت کاری اور مذاکرات کی حمایت کی ہے۔ آسٹریلوی حکومت نے اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدام کی براہ راست حمایت نہیں کی، تاہم ایران کے جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگرام کو عالمی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا: "ہم صدر ٹرمپ کے اس بیان کو نوٹ کرتے ہیں کہ اب امن کا وقت ہے، اور ہم کشیدگی میں کمی، مکالمے اور سفارتی راستہ اپنانے پر زور دیتے ہیں۔” دوسری جانب، نیوزی لینڈ کے وزیر خارجہ ونسٹن پیٹرز نے حملوں پر فکرمندی ظاہر کی، تاہم انہوں نے امریکہ کی مذمت نہیں کی ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ تنازعہ کو فوری ختم کیا جانا ضروری ہے، شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانا ناگزیر ہے، تمام فریقین بین الاقوامی قانون اور انسانی ہمدردی کے قوانین کی پاسداری کریں۔ بیشتر عسکری مبصرین نے زوردیاہے ہ کہ مذاکرات اور سفارتکاری ہی خطے کے مسائل کا واحد حل ہے، اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کے مطابق بحران کا پرامن حل ضروری ہے یہ حملے ہٹ دھرمی، جارحیت اور جنگی جرائم ہیں، یہ 2003 میں عراق جنگ کی طرح جھوٹ پر مبنی ہیں۔ درحقیقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے موقف پر یوٹرن لے کر دھوکا دہی اور فریب کا مظاہرہ کرتے ہوئے نئی جنگیں نہ شروع کرنے کے وعدے سے پھر گئے امت مسلمہ کو مختلف چیلنجز درپیش ہیں، جن سے نمٹنے کے لئے مل کر کام کرنا اہم ضرورت ہے، پرامید ہیں اس سے متعلقOIC بھرپور کردار ادا کرے گی کیونکہ اسلاموفوبیا کی روک تھام کے لئے مل کر اقدامات کرنا ہوں گے، اسرائیلی جارحیت سے خطے کے امن کو خطرات لاحق ہیں غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اسرائیل میں ہزاروں بچوں اور خواتین کو شہید کرچکا ہے، ایران اور غزہ میں فوری اور غیرمشروط جنگ بندی حالات کا تقاضاہے ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت ، اور امریکی حملہ یہ اقدامات عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہیں، یہ جارحیت عالمی امن کیلئے خطرہ ہے۔ ادھر ایران کی ایٹمی توانائی تنظیم کے نائب سربراہ رضا کاردان نے کا کہناہے کہ ا سرائیلی اور امریکی حملوں کے باوجود تابکاری یا جوہری آلودگی ریکارڈ نہیں ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کی حفاظت کے لئے پہلے ہی تمام حفاظتی اقدامات نافذ کیے جا چکے تھے، اس لئے عوام کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
دوسری جانب کویت نے بھی اعلان کیا ہے کہ ایران پر حملوں کے بعد خلیجی ریاست میں تابکاری کی سطح میں کسی تبدیلی کی نشاندہی نہیں ہوئی۔ نیشنل گارڈ کے مطابق فضائی اور بحری حدود میں تابکاری کی سطح کا معائنہ کیا گیا، جو مکمل طور پر معمول کے مطابق رہی۔ ایران نے جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کے بعد اسرائیل پر جوابی میزائل برسادئیے جس کے نتیجے میں تل ابیب اور مقبوضہ بیت المقدس دھماکوں سے گونج اٹھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے