کالم

ایران کی خاموش پسپائی، مسلم دنیا کی فکری ناپختگی

اور ان سے(دشمنوں سے)مقابلے کے لیے جتنی قوت تم سے ہو سکے، اور باندھے ہوئے گھوڑے (یعنی جنگی وسائل)تیار رکھو تاکہ اللہ کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں پر رعب طاری ہو(سور الانفال، آیت 60)
یہ محض ایک مذہبی نعرہ نہیں، ایک عملی حکم ہے جو مسلمان اقوام کو صرف تلوار نہیں، تیاری، حکمت اور سائنسی برتری کا سبق دیتا ہے۔افسوس کہ آج ہمارے خطے کی ریاستیں اور ان کے قلندرانِ میڈیا اس آیت کو نعروں، جلسوں اور دشمنی کے جذبات تک محدود کر چکے ہیں، اور خود اسی آیت کے بنیادی تقاضے یعنی علم، دفاع، اور منصوبہ بندی کو ترک کر بیٹھے ہیں۔میں واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ نہ میں اسرائیل کے استعماری ظلم کا حامی ہوں نہ ہی فرقہ پرست ایرانی مذہبی رجیم کی استبدادی سیاست کا وکیل۔لیکن جسے ہم ایران کی مزاحمت کہہ رہے ہیں، اگر اس کا انجام خود ایرانی عوام کی ذلت اور خاموشی ہے، تو یہ سوال پوچھنا لازم ہے کہ یہ جنگ کس نے چھیڑی، کس نے پالیسی بنائی، اور کون اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے؟
پاکستانی میڈیا میں ایک عجب رومان پرستی ہے۔ گزشتہ دنوں ایران اسرائیل کشیدگی پر مشاہد حسین، ملیحہ لودھی، حامد میر، نجم سیٹھی، طلعت حسین اور کئی دیگر تجزیہ کار ایک ہی لب و لہجے میں نظر آئے ،سب نے یہ تاثر دیا کہ ایران نے اسرائیل کو لرزا دیا ہے، اور امریکہ اب بوکھلا گیا ہے۔مگر حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔اسرائیلی طیارے ایرانی فضاؤں میں بلاخوف پرواز کرتے ہیں، ایٹمی و عسکری مراکز تباہ ہوتے ہیں، اعلی جرنیل اور سائنس دان ایک ہی دن ایک ہی مقام پر نشانہ بنتے ہیں اور ایرانی دفاع خاموش تماشائی۔کچھ کا کہنا ہے کہ امریکہ نے ایران کو دھوکہ دیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایران جیسے ملک کی انٹیلی جنس اس قدر ناقص ہے کہ وہ امریکی سفارتخانے کے انخلا کا مطلب نہیں سمجھ سکی؟ اگر ایک سال پہلے تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے، اور اس کے باوجود ایران اپنی سیکیورٹی کو موثر نہ بنا سکے، تو یہ صرف بیرونی حملہ نہیں، اندرونی ناکامی ہے۔اور یہ ناکامی صرف فوجی یا دفاعی نہیں یہ بیانیے کی شکست ہے۔چالیس برس سے عوام کو بتایا جا رہا تھا کہ ایران واحد ملک ہے جو امریکہ اور اسرائیل کو نیست و نابود کرے گا۔ اب جب میدان آیا تو نہ حماس بچی، نہ حزب اللہ، نہ شامی اتحادی، نہ یمن کے حوثی سب ایک ایک کر کے پاش پاش ہو گئے، اور تہران صرف بیانات پر رہ گیا۔ایرانی میڈیا نے بھی عوام کو سچ سے محروم رکھا۔ ہر حملے کو فتح بنا کر پیش کیا گیا، ہر خاموشی کو حکمت کا نام دیا گیا۔ یہ طرزِ عمل صرف آمریت میں نہیں، جمہوریت کے پردے میں چھپی مذہبی آمریت میں بھی رائج ہے۔اور اب ہم مغرب کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔یقینا مغرب کا دوہرا معیار موجود ہے، مگر ناروے، آئرلینڈ، اسپین، بیلجیئم جیسے ممالک نے نہ صرف اسرائیلی حملوں کی مذمت کی، بلکہ بائیکاٹ مہمات تک کا آغاز کیا۔
ادھر مسلم دنیا کہاں ہے؟
کیا کسی اسلامی ملک نے سفیر واپس بلایا؟ کیا OIC نے ہنگامی اجلاس بلایا؟ کیا چین، جسے ہم امید سے دیکھتے ہیں، کوئی واضح موقف سامنے لایا؟
حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ریاستیں آج بھی نعروں، مظاہروں اور جذباتی بیانیوں سے آگے نہیں بڑھ سکیں۔ ہم اب بھی ابابیل کی تمنا میں بیٹھے ہیں، مگر ڈِرون، میزائل، اور مصنوعی ذہانت بنانے کو مغربی سازش سمجھتے ہیں۔ہم نے قرآن کی دعوتِ تیاری کو صرف معرکوں کی زبانی یاد میں رکھا، اس تیاری کی اصل روح علم، سائنس، تدبیر اور بصیرت کو گنوا دیا۔وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو صرف جنگوں کی کہانیاں نہ سنائیں، بلکہ انہیں بتائیں کہ جنگ جیتی جاتی ہے تحقیق، صنعت، معیشت اور متحد شعور سے۔اور اگر آج خدا بھی ہماری مدد کو نہیں آ رہا، تو شاید وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ہم کب اپنی عقل استعمال کرنا سیکھتے ہیں۔اس سے پہلے کہ ہم عقل کو پھر کسی غار میں دفن کر آئیں، یہ جاننا ضروری ہے کہ ایران صرف اسرائیل سے نبرد آزما نہیں رہا اس نے مسلم دنیا میں کئی دہائیوں سے پراکسیز کے ذریعے اپنے اثر و رسوخ کی کوششیں کیں، جن میں پاکستان بھی شامل رہا۔ ہمارے ہاں فرقہ وارانہ تقسیم، اسلحہ بردار گروہوں کی پشت پناہی اور فکری تشدد کی کئی جڑیں اسی مداخلت سے جڑی ہیں لیکن اب وقت بدل چکا ہے۔دنیا کی بڑی طاقتیں، یہاں تک کہ وہ ریاستیں بھی جو مسلم دنیا پر شکوک سے نظر ڈالتی تھیں، یہ حقیقت جان چکی ہیں کہ پاکستان اب ایک ناقابلِ تسخیر ایٹمی ریاست ہے ،نہ صرف عسکری طورپر،بلکہ عوامی حوصلے اور فکری مزاحمت میں بھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج کسی طاقت کو یہ ہمت نہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف براہِ راست محاذ کھولے۔ یہ ممکن ہے کہ اسرائیل سمیت کچھ حلقے یہ خواب ضرور دیکھتے ہوں، مگر دنیا میں کوئی طاقت ایک اور شمالی کوریا بنتے نہیں دیکھنا چاہتی۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے اپنے میڈیا اور فکری مافیا میں کچھ چہرے وہی پرانا کارڈ کھیل رہے ہیں ،اگلا نشانہ پاکستان ہے۔ یہ تجزیہ نہیں، خوف کا کاروبار ہے؛ وہی خوف جو ریٹنگ میں اضافہ کرتا ہے، وہی مایوسی جو نادانوں کو ہیرو بناتی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب سمیت کئی عرب ریاستیں اب پاکستان میں تاریخی سطح کی سرمایہ کاری کی طرف آ رہی ہیں، اور آنے والے دنوں میں اس میں غیر معمولی اضافہ متوقع ہے کیونکہ وہ اب جان چکے ہیں کہ اگر گلوبل ویلج میں باعزت شراکت چاہیے تو علم، تجارت، ٹیکنالوجی، اور استحکام کی طرف بڑھنا ہو گا۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے سماج میں اب بھی ایسے عناصر موجود ہیں جنہوں نے جدیدیت، تعلیم اور ٹیکنالوجی کو "حرام” قرار دے رکھا ہے اوریہ وہی لوگ ہیں جنکی اپنی اولادیں مغربی جامعات میں پڑھ رہی ہیں، مگر جنہیں عوام کی جہالت عزیز ہے تاکہ وہ اپنے تعصبات، اپنی مقبولیت، اور اپنے مفادات کا کاروبار جاری رکھ سکیں۔یہی وقت ہے کہ ہم حقیقت کو تسلیم کریں نہ ایران کی فرقہ پرست تھیوکریسی ہمارے لیے نجات دہندہ ہے، نہ اسرائیل کی عسکری جارحیت کوئی ماڈل۔ نجات صرف ایک جگہ ہے: علم، تیاری، بصیرت، اور اس عقل میں جس کا ہمیں حکم دیا گیا تھا۔
محض دعاؤں سے کبھی بلا ٹلی ہے؟
سعودی عرب کی جانب سے حالیہ بیانات اور اقدامات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف پاکستان کی ایٹمی طاقت کو علاقائی استحکام کے لیے ایک ضامن سمجھتا ہے بلکہ اب اس نے اس پالیسی پر عملی سرمایہ کاری کا عندیہ بھی دیا ہے۔ یہ سرمایہ کاری محض سعودی عرب کی دفاعی حکمت عملی نہیں بلکہ پاکستان کے لیے بھی ایک موقع ہے ،اپنے داخلی استحکام، اقتصادی نظم و نسق، اور عالمی سائنسی و سفارتی دھارے میں شامل ہونے کا۔عرب دنیا میں اب وہ قیادت سامنے آ چکی ہے جو مصنوعی ذہانت، تعلیمی اصلاحات، اور ٹیکنالوجی کی طرف جھکا ؤکو دشمنوں سے مقابلے کے جدید معانی کے طور پر اپنائے ہوئے ہے اور یہی وہ راستہ ہے جو قرآن کے حکم ”قوت کی تیاری”سے بھی ہم آہنگ ہے۔
قیادت کا اصل فریضہ یہی ہے کہ وہ اپنے عوام کو تباہی کے اندھیروں سے نکال کر ترقی کی روشنی تک لے جائے، نہ کہ جلسوں اور نعروں کے شور میں انہیں نفسیاتی مریض بنا دے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں میڈیا اور مذہبی قوم پرست حلقے ایسا بیانیہ تشکیل دے رہے ہیں جو سچ سے زیادہ خوف بیچتا ہے، اور اصلاح سے زیادہ تباہی کو دعوت دیتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے