کالم

بھارت کا کشمیر پر جبراً قبضہ

میں دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ہندوستان کو تقسیم کے نتیجے میںدو نئے ملک پاکستان اور بھارت وجود میں آئے۔ تقسیم فارمولے کے مطابق برصغیر کی تقریباً 600 ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ مسلمان اکثریت کے علاقے پاکستان کا حصہ1947 بنیں گے اور ہندو اکثریت کے علاقے بھارت کا حصہ بنیں گے۔ دوسری ریاستوں کی طرح یہ فارمولا کشمیر پر بھی لاگو ہوا۔ کشمیر یوں کی جدوجہد ڈوگرہ مہاراجہ کے خلاف قیام پاکستان سے پہلے ہی جاری تھی۔ کشمیری رہنما چودھری عباس اور شیخ عبداللہ جیل میں تھے لیکن کشمیری آزادی پسند تھے لہذا انہوں نے مہاراجہ کے شخصی راج سے نجات حاصل کرنے کے لئے غلامی کا بوجھ اتارنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ جموں و کشمیر میں 68% آبادی مسلمان تھی جس کا حکمران غیر مسلم تھا۔ قدرتی لحاظ سے ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ بنتا تھا کیونکہ مذہب جغرافیہ کلچر، تاریخ ایک تھی۔ کشمیر میں شیخ عبداللہ، چودھری غلام عباس نے آل جموں و کشمیر کے پلیٹ فارم سے جدوجہد شروع کی بعد میں شیخ عبداللہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے اور ہندوو¿ں کی چالوں میں آ کر نیشنل کانفرنس قائم کر لی۔ یہی علیحدگی کشمیری عوام کی بدقسمتی کا آغاز تھا۔ انگریزوں اور کانگریسی رہنماو¿ں کی ریشہ دوانیوں سے باو¿نڈری کمیشن کے اہم کردار ریڈ کلف ایوارڈ نے گورداسپور کے علاقہ جو کہ کشمیر میں رسائی کا ذریعہ تھا بھارت کو دے دیا۔ اس سے قبل 19 جولائی 1947ءکو کشمیریوں نے متفقہ قرارداد کے ذریعہ پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کر لیا تھا۔ پورے کشمیر میں جدوجہد شروع ہو چکی تھی۔ بھارت نے 27 اکتوبر 1947ءکو رات کے اندھیرے میں کشمیر پر فوجیں اتار کر جبراً قبضہ کر لیا۔ کشمیریوں نے بغاوت کی اور اپنی مدد آپ کے تحت آزاد کشمیر کا 4½ ہزار مربع میل علاقہ اور 29000 مربع میل گلگت بلتستان جہاد کر کے آزاد کرا لیا۔پورے جموں و کشمیر کی آزادی کےلئے کشمیری سرینگر کی جانب پیش قدمی کر رہے تھے۔ بھارت کے وزیراعظم نہرو نے اقوام متحدہ میں جا کر مسئلہ کشمیر اٹھایا اور بھارت سے ڈوگرہ کے الحاق کی جھوٹی کہانی بنائی حالانکہ مہاراجہ اور شیخ عبداللہ الحاق کے مجاز نہ تھے نہ ہی جغرافیائی اور تاریخی حقائق بھارت کے حق میں تھے۔ پھر جب کشمیر کی 68% آبادی مسلمان تھی پھر کیسے اس کا الحاق ایک غیر مسلم ملک کے ساتھ ہو سکتا تھا۔ اقوام متحدہ نے تنازعہ کشمیر کےلئے قراردادیں منظور کیں جن میں کشمیریوں کا حق خود ارادیت تسلیم کیا گیا اور یہ طے ہوا کہ ان کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کےلئے رائے شماری کا موقع فراہم کیا جائے۔ وزیراعظم نہرو نے اپنے پارلیمنٹ انڈیا اور ریڈیو انڈیا میں خطاب کے دوران اور پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی کو بذریعہ خط اور پوری دنیا سے وعدہ کیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو استصواب رائے فراہم کیا جائے گا۔ دنیا کے سامنے بھارت نے ہمیشہ مذاکرات کا ڈھونگ رچا کر امن پسند اور مہذب ملک ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ آج 78 برس گزرنے کے باوجود بھارت مختلف حیلے بہانوں سے اس سے انکار کرتا چلا آ رہا ہے اور اب تو ڈھٹائی سے بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ کہتا ہے۔ اس اٹوٹ انگ میں بسنے والے ایک کروڑ کشمیری بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف گذشتہ 74 سالوں سے نبردآزما ہیں۔ اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ کشمیری بھارتی غاصب افواج کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں مگر کشمیر میں بھارت سے آزادی کی تحریک ختم نہیں ہو سکی‘ یہ اب بھی جاری ہے۔ 1947 سے آج تک بھارت کی 8 لاکھ فوج پرامن کشمیریوں کو فتح کرنے پر لگی ہوئی ہے۔ بھارت پروپیگنڈے سے کشمیر کی پرامن جدوجہد کو دہشت گردی ثابت کرنا چاہتا ہے۔ بھارت تو اب کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے اور آزادی کی بات کو تو وہ مانتا ہی نہیں۔ اسی سلسلے میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بھارت کا پاکستان کا دورہ کرنے والا کوئی حکومتی عہدیدار، دانشور، صحافی، وکیل کشمیریوں اور کشمیر کی بات نہیں کرتا۔ محترم مجید نظامی مرحوم نے بین الاقوامی TV (H.B.O) کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستانی عوام اور کشمیری عوام کی بھرپور نمائندگی کرتے ہوئے واضح الفاظ میںکہا تھا کہ کشمیری عوام آزادی تک بھارت سے دوستی نہیں چاہتے۔ بھارت ہمارے دریاو¿ں پر قبضہ کر کے ہمیں بنجر اور ریگستان بنانا چاہتا ہے۔ ہمارے بھارت سے تعلقات بہتر کیسے ہوسکتے ہیں۔ مجید نظامی کا یہ پیغام پوری پاکستانی قوم کا پیغام ہے ۔ یہ پیغام مسئلہ کشمیر پر ہماری پالیسی ہونی چاہیے۔ تنازعہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ تنازعہ تین جنگوں کا باعث بن چکا ہے۔ آج بھی کنٹرول لائن پر عملاً جنگی صورتحال جاری ہے۔ بھارت کی طرف سے آئے روز جنگ بندی کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ آزاد کشمیر پر بمباری سے درجنوں سویلین شہید ہو رہے ہیں۔ پاکستان ابھی تک تحمل سے کام لے رہا ہے۔ اگر اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے اس مسئلہ کے حل کے لئے جلد از جلد کوئی قدم نہ اٹھایا تو برصغیر کی دو ایٹمی طاقتوں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان یہ تنازعہ ایٹمی جنگ کا باعث بن سکتا ہے۔ بھارت اپنی اندھی طاقت کو تحریک آزادی کشمیر کو دبانے کیلئے استعمال کررہا ہے۔ بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں جرائم پر عالمی برادری آنکھیں کھولے۔ عالمی برادری معاشی اور دیگر مفادات کی خاطر مسئلہ کشمیر پرآ واز نہیں اٹھاتی۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کا کردار زبانی جمع خرچ سے زیادہ نہیں۔ پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل چاہتا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کوئی سقم نہیں ہے۔ صرف ان کا اطلاق مسئلہ ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کے آبزرور مشن کے ساتھ مکمل تعاون کررہا ہے۔پاکستان اور کشمیر کے عوام مسئلہ کشمیر کے سفارتی حل کے لئے تیار ہیں اور جبکہ بھارت مسئلہ کے حل کے لئے روڑے اٹکا رہا ہے اور کوئی پیش رفت نہیں کررہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں حالات مسلسل بگڑ رہے ہیں لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے‘ نوجوانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے‘ عورتوں کی بے حرمتی کی جارہی ہے۔حریت قیادت کو نظر بند کیا جارہا ہے۔ بھارتی قابض فوج کالے قوانین کا کشمیریوں کے خلاف اندھا استعمال کررہی ہے۔ بھارت آبادی کا تناسب بدل رہا ہے۔ آزاد کشمیر کے لوگ بھی بھارتی جارحیت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ بھارت سیز فائر لائن کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ ہندوستان اپنی طاقت کو تحریک آزادی کشمیر کو دبانے کےلئے استعمال کررہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے