پاکستان بیلو اکانومی کے فروغ کے لیے سنجیدگی کیساتھ مرحلہ وار اگے بڑھ رہا ہے ، اس ضمن میں اسلام آباد میں ہونے والی انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپو اینڈ کانفرنس کی سافٹ لانچنگ تقریب سے وزیر اعظم شبہازشریف کا خطاب کلیدی اہمیت کا حامل رہا، تاریخی طور پر جب سے انسان نے بہتر زندگی کے حصول کے لیے معاشی سرگرمیوں کا آغاز کیا، تب سے پانی کے ذریعے تجارت کو نمایاں حثیثت حاصل رہی۔ اس سچ کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ آج دنیا کی 90 فیصد تجارت پانی کے ذریعے ہی ہورہی ہے یاد رہے کہ پانی سے تجارت میں دریا اور سمندر دونوں شامل ہیں ، بلیواکانومی کے حوالے سے دنیا بھر میں جس اصول پر عمل کیا جاتا ہے وہ یہ کہ سب سے پہلے خود حکومت آگے بڑھ کر بنیادی ڈھانچہ ترتیب دیتی ہے ، اس کی بنیادی وجہ یہ کہ کیونکہ بلیو اکانومی میں بڑی اور قابل زکر سرمایہ کاری کی ضرورت ہوا کرتی ہے چنانچہ نجی شعبہ حکومتی دلچیسپی کو دیکھ کر ہی آگے بڑھتا ہے ،ماہرین کے مطابق میری ٹائم پالیسی کو دوسری پالیسیوں سے الگ نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسے دوسری پالیسوں کے ساتھ مربوط کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، ماہرین کے مطابق بلیو اکانومی براہ راست کسی ملک کی سیاحت کو فروغ دینے کا باعث بنتی ہے، اسی کی وجہ سے سیاحوں کو اچھی رہائش گاہیں اور سڑکوں کا ایسا نیٹ ورک میسر آتا ہے جہاں وہ با آسانی گھوم پھر سکتے ہیں، بلیو اکانومی کو ترقی و فروغ دینے کے لیے مطلوبہ انفراسٹرکچر قائم کرنا لازم سمجھا جاتا ہے، قابل زکر یہ ہے کہ ہمارے ہاں جب بھی بلیو اکانومی اور ساحلی علاقے کی بات ہوتی ہے تو محض پاکستان نیوی کا ذکر کیا جاتا ہے اس کے برعکس بھارت اور بنگہ دیش جیسے ملکوں میں نجی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کیجتن کیے جاتے ہیں ۔ بلیو اکانومی کے لیے نہ صرف زیادہ سرمایہ چاہیے بلکہ اس میں منافع کی مدت بھی صبر آزما ہے۔ ہمارے ہاں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بلیواکانومی کے لیے امن و امان کی صورت حال بہتر ہونی چاہے اس کے برعکس حقیقت یہ ہے ساحلی علاقوں میں بھی سکیورٹی کے وہی مسائل ہیں جو پاکستان کے کسی بھی دوسرے علاقے میں موجود ہوسکتے ہیں، اس پس منظر میں عالمی میری ٹائم ایکسپو کانفرنس کے دوسرے ایڈیشن کا انعقاد خوش آئند ہے، کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شبہازشریف کا کہنا تھا کہ پاک بحریہ ہمارے قومی دفاع کے آرکیٹیکچر میں ہمیشہ ایک مضبوط ستون کے مانند کھڑی رہی ہے، چاہے وہ 1965 کا عظیم دوارکا آپریشن ہو یا حالیہ بھارتی مس ایڈوینچر ہو، پاک بحریہ نے ہمیشہ پروفیشنل ازم کا مظاہرہ کیا ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان بین الاقوامی امن، علاقائی استحکام، اور عالمی اصولوں کی پاسداری کے لیے پرعزم ہے، جو ہماری بحری سفارت کاری کی رہنمائی کرتے رہتے ہیں، وزیر اعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں منعقد ہونے والی امن مشق میں 60 ممالک کی شرکت ہمارے غیر متزلزل عزم کا بھرپور اظہار ہے۔”وزیر اعظم پاکستان کی کاوشیں اپنی جگہ مگر ایک مشکل یہ بھی ہے کہ حکومت پالیسی کا اعلان تو کردیتی ہے مگر ماتحت عملہ منصوبہ کی روح کے مطابق اس پر عمل درآمد نہیں کرپاتا ، وطن عزیز میں ایک چیلنج سمندر سے عدم واقفیت ہے ، مثلا ہمارے ہاں کبھی سمندر کی اہمیت اور اس سے جڑی معیشت کی ضرورت کو نہیں سمجھا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے 80 فیصد لوگوں نے تو سمندر دیکھا ہی نہیں اور جنھوں نے دیکھا انھوں نے بھی محض ساحل دیکھا۔ تاریخی طور پر جب پاکستان میں ساٹھ کی دہائی اور اس کے بعد انڈسٹریلائزیشن ہوئی تو ساحلی علاقوں کو اس سے بڑی حد تک باہر رکھا گیا۔ اس کے برعکس پڑوسی ممالک میں مائیکرو فنانس کے ذریعے فشریز کے شعبے کو سستے قرضے دیے گے جس نے طویل المدتی اثرات مرتب کیے ۔مثلا تلخ سچ یہ ہے کہ ہماری کیٹی بندر میں بہت سارے ماہی گیروں کے پاس شناختی کارڈ ہی نہیں تو انھیں کیوں اور کیسے حکومتی قرضے مل سکتے ہیں، اگرچہ بھارت بلیو اکانومی میں پاکستان سے آگے ہے تاہم یہاں یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ پڑوسی رقبے کے اعتبار سے ہم بڑا ہے یوں اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس کی ترقی اتنی شاندار بھی نہیں ۔ادھر بنگلہ دیش کا معاملہ یہ ہے کہ مذکورہ شبعہ میں وہاں اگر ترقی ہوئی اس کی وجہ وہاں کی حکومتوں کا اس شعبہ کو تسلسل سے اہمیت دینا ہے ۔، سمجھ لینا چاہے کہ بلیواکانومی کا مطلب محض سمندر اور دریا کے ذریعے سامان کی تجارت ہی نہیں بلکہ اس شبعے کا تصور بہت وسیع ہے جس میں ماہی گیری اور اس میں پکڑی جانے والی سمندری پراڈکٹس کی پراسیسنگ اور ان کی تجارت اور برآمدات کے ساتھ جہاز رانی کا شعبہ اور شپ بریکنگ انڈسٹری بھی شامل ہے۔ بلیو اکانومی میں ساحلی علاقوں کی سیاحت کا شعبہ ، آف شور آئل بلڈنگ اور سمندر کی تہہ سے تیل نکالنا بھی نمایاں ہے۔ ۔بلیو اکانومی اور بحری امور کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں اس شبعے کی ترقی نہ ہونے کی نمایاں وجوہات میں جہاں آگاہی کی کمی ہے وہی مطلوبہ انفراسٹرکچر کی عدم دستیابی بھی ہے۔ یقینا اگر ماضی کی حکومتیں بلیواکانومی کی اہمیت کو سمجھ کر اس پر توجہ مرکوز کرتیں تو آج اس شبعہ بارے عدم توجہی کا شکوہ کسی طور نہ کیا جاتا۔ امید کی جارہی کہ شہبازشریف حکومت مستقبل قریب میں بلیواکانومی کے فروغ میں نمایاں پیش رفت کر ماضی کی حکومتوں کی غلطیوں کی غلطیوں کی تلافی کریگی ۔