بھارت کی ہندو انتہا پسند جماعت شیو سینا نے بھی موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے گجرات فسادات میں ملوث ہونے کا اعتراف کرلیا۔ بھارت میں برسراقتدار جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا سیاسی چہرہ کہی جاتی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے تمام ہی سیاسی رہنما آر ایس ایس کے رکن رہے ہیں۔ بھارت کے موجودہ وزیر اعظم مودی بھی آر ایس ایس ہی کے رضاکار تھے اور بعد میں انہوں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی لیکن اب بی جے پی اور آر ایس ایس کے درمیان تنازع شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ بھارت کی کئی ریاستوں خصوصاً مہاراشٹرا میں سیاسی طاقت رکھنے والی ہندو انتہا پسند جماعت شیو سینا کے سربراہ اودھو ٹھاکرے بی جے پی اور مودی کے خلاف کھل کر سامنے آگئے ہیں۔بھارت کی مغربی ریاست گجرات کے شہروں بھر±وچ اور س±ورت میں ایک بار پھر مسلم کش فسادات کی سازش پر عمل کیا جارہا ہے۔ بھروچ میں متعدد پ±رتشدد واقعات رونما ہوئے ہیں۔ مسلم آبادی میں متعدد املاک کو آگ لگادی گئی جن میں موٹر سائیکلیں اور دیگر اشیا شامل ہیں۔جے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے ڈنڈوں اور سلاخوں سے لیس ہندوو¿ں نے مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔ حملوں سے زخمی ہونے والے مسلمانوں میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب انتہا پسند ہندوو¿ںنے عید میلاد النبی ﷺ کے حوالے سے جھنڈے اور بینر لگانے سے مسلمانوں کو روکا۔ چند علاقوں سے جھنڈے اتارنے پر مسلمانوں میں اشتعال پھیل گیا۔گجرات کے شہر س±ورت میں بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال پیدا ہوئی۔ پولیس نے ایک بار پھر انتہائی درجے کی جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہا پسند ہندوو¿ں کے بجائے 27 مسلمانوں ہی کو گرفتار کرلیا۔دو دن قبل بھی س±ورت میں گنیش چترتھی کے موقع پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ گنیش پنڈال پر حملے کے الزام چند مسلمان بچوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ریاست گجرات کے شہر بھروچ میں پ±ر تشدد واقعات میں مسلم آبادی میں موٹر سائیکلوں اور املاک کو آگ لگا دی گئی۔ ایک تقریب کے دوران اودھو ٹھاکرے نے کہا کہ مودی گجرات فسادات میں ملوث تھے۔ اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے گجرات فسادات میں مودی کو ’راج دھرما‘ نبھانے کا حکم دیا۔ واجپائی نے مودی کو اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ادا کرنے کو کہا تھا اور 2004ءکے انتخابات میں شکست پر استعفیٰ بھی طلب کیا تھا۔ اگر بال ٹھاکرے مودی کی پشت پر کھڑا نہ ہوتا تو مودی آج وزیراعظم نہ ہوتا۔گجرات میں مسلمانوں کے خلاف یہ فسادات گجرات کی ریاستی حکومت کی درپردہ اجازت پر کیے گئے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یہ مسلمانوں کی نسل کشی تھی۔ اس میں تقریباً 2500 مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا یا زندہ جلا دیا گیا۔ سینکڑوں مسلمان خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ ہزاروں مسلمان بے گھر ہوئے۔ان فسادات کو روکنے کے لیے پولیس نے کوئی کردار ادا نہ کیا بلکہ گجرات کے وزیر اعلی مودی نے اس قتل و غارت کی سرپرستی کی۔ ہندو بلوائیوں کیلئے مسلمانوں کا قتل انتقام نہیں بلکہ کھیل کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ ریاستی پولیس موجود تھی لیکن بالکل لاتعلق۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ مسلمانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مارا جا رہا ہے۔ یہ شیطانی کھیل تین راتیں اور تین دن تک جاری رہا۔ ہندو دہشت گردوں سے معصوم بچے یا بوڑھے کوئی بھی محفوظ نہیں تھا۔ بہت سے بچوں اور عورتوں نے چھتوں سے ہندو ہمسائیوں کے گھر کود کر پناہ حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ہمسائیوں نے انتہائی بے رحمی سے انہیں ہندو دہشت گردوں کے حوالے کر دیا۔یہاں تک کہ ہزاروں مسلمانوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر حکومت کی طرف سے بنائی گئی پناہ گاہوں میں پناہ لینی پڑی۔ اسی دوران لڑکیوں کے ایک سکول کو بھی پناہ گاہ میں تبدیل کر کے بے گھر ہونے والے مسلمانوں کو وہاں منتقل کر دیا گیا۔ جن میں اکثریت بچوں، کم سن و نوجوان لڑکیوں اور بوڑھی عورتوں کی تھی کہ اچانک ایک رات ہندو دہشت گردوں نے سکول پر دھاوا بول دیا۔ صبح ہونے تک وہاں ایک بھی پناہ گزیں زندہ سلامت نہیں بچا تھا۔ تین دنوں میں گجرات میں ایک بھی مسجد سلامت نہیں رہنے دی گئی۔ یہاں تک کہ احمد آباد میں صوفی بزرگ ولی گجراتی کی خانقاہ کو بھی آگ لگا دی گئی۔پاکستان نے 2002 کے گجرات کے فسادات کے دوران مسلم مخالف تشدد میں بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کی جانب سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت کے براہ راست ملوث ہونے کی تصدیق پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ بھارت مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے فوری طور پر ایک آزاد انکوائری کمیشن تشکیل دے۔25 نومبر کو بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی کے وفاقی وزیر داخلہ امیت شاہ نے گجرات میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے 2002 میں بطور وزیر اعلیٰ گجرات سماج دشمن عناصر کو سبق سکھایا تھا۔ وزیراعظم نریندر بھائی (مودی) کے لیے مسائل پیدا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے ایسا سبق پڑھایا کہ انہیں 2022 تک کچھ کرنے کی ہمت نہیں ہوئی، بھارتیہ جنتا پارٹی نے گجرات میں امن قائم کر دیا۔