ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے 47ویں صدر کا واشنگٹن کی ایک پروقار تقریب میں حلف اٹھا لیا امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ان سے حلف لیا ۔ صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب میں کہا ہم امریکہ کو عظیم ملک بنائیں گے انتقام کا خاتمہ ہماری پالیسی ہوگی اور دنیا میں امن قائم ہو گا۔ انہوں نے جنوبی سرحدوں میں ایمرجنسی کے نفاذ اور پانامہ کینال واپس لینے کا اعلان کیا۔ صدر نے امریکہ کو دوبارہ عظیم ملک بنانے ٹیکسوں اور مہنگائی میں کمی اور غیر قانونی تارکین وطن کو ملک سے نکالنے کا اعلان کیا۔ ٹرمپ نے خلیج میکسکو کا نام تبدیل کرکے خلیج امریکہ رکھ دیا۔ ان کے اس اعلان کے بعد امریکہ میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے ہیلری کلنٹن نے بھی اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اپنے پہلے دور حکومت میں بھی وہ متنازعہ بیانات کی وجہ سے مشہور تھے۔ گزشتہ انتخاب میں ٹرمپ جو بیڈن کے مقابلے میں شکست کھا گئے تھے انہوں نے امریکی تاریخ میں پہلی بار صدارتی انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا۔ شکست کے بعد ٹرمپ کے حامیوں نے کیپیٹل ہل پر حملہ کیا اور انہیں سزا ہوئی۔ ٹرمپ امریکہ کے ایک کامیاب بزنس مین ہیں، امریکی عوام کی اکثریت ان سے پیار کرتی ہے۔ اسی لئے انہیں دوبارہ صدر منتخب کرایا ۔ ان کے خلاف کئی مقدمات چل رہے ہیں اور الیکشن جیتنے کے بعد ایک مقدمے میں انہیں سزا بھی سنائی گئی لیکن یہ سزا ان کے وائٹ ہاو¿س پہنچنے کے راستے میں حائل نہ ہوئی ۔ 2024کے صدارتی الیکشن میں انہوں نے بھرپور عوامی مہم چلائی اور اپنی حریف کمیلا ھیرس کا ہر سطح پر مقابلہ کیا اور کامیابی نے ان کے قدم چومے ۔ وہ امریکہ کے مضبوط ترین صدر ہیں کیونکہ ان کی پارٹی کو ایوان نمائندگان اور سینٹ میں بھی اکثریت حاصل ہے اور ان کے دور حکوت میں فیصلہ سازی میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوگی اور وہ انتخابی مہم میں عوام سے کئے گئے وعدے پورے کر سکیں گے ۔ امریکہ میں صدارتی کرسی پر کوئی بھی بیٹھے ان کی اسرائیل نواز پالیسی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن اس بات کا کریڈٹ تو انہیں دینا پڑے گا کہ ٹرمپ نے غزہ میں پندرہ ماہ سے جاری جنگ کو رکوانے میں مرکزی کردار ادا کیا اور اپنی حلف برداری سے قبل حماس کی رضا مندی سے جنگ بندی کا معاہدہ کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے اپنی صدارت کے پہلے روز ہی بیڈن انتظامیہ کے 78 احکامات منسوخ کر دیے،ایک طرف انہوں نے جو بیڈن کی بیٹے کو معافی پر تنقید کی اور خود کیپیٹل ہل پر حملے کے پندرہ سو ملزمان کی معافی کا حکمنامہ جاری کر دیا۔ ادھر طالبان نے امریکی فوج کے چھوڑے گئے اسلحے گاڑیاں طیارے اور دیگر سامان واپس کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ داعش سے مقابلے کیلئے مزید اسلح چاہیے۔ بلوم برگ کےمطابق امریکی سامان واپس نہ کرنے کی صورت میں امریکہ طالبان پر مزید اقتصادی پابندیاں لگا سکتا ہے ۔ فوبلز میگزین کے مطابق ٹرمپ کو بدلتی دنیا میں مشکل حالات کا سامنا ہو گا افغان پاکستان تنازعہ اور روس یوکرین جنگ کی وجہ سے بہت سے مسائل کا سامنا ہوگا۔ میکسیکو کے صدر نے ٹرمپ کے احکامات کو مسترد کر دیا ہے۔وزیراعظم شہباز شریف اورصدر پاکستان نے صدارت کا دوبارہ عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی اور امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم دھرایا ۔ روس میں گلاسنوسٹ تھیوری کی ناکامی کے بعد روس کی ریاستیں آزاد ہو گئیں اور امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور رہ گیا ۔ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لئے افغانستان پر قبضہ کیا عراق کے تیل کے زخائر پر کنٹرول کے لئے صدام حسین پر جراثیمی ایٹمی ہتھیار بنانے کا الزام لگا کر عراق پر قبضہ کیا اور بعد میں یہ الزام غلط ثابت ہوا۔ کویت میں امریکی فوج اب بھی سیکورٹی کیلئے موجود ہے۔ لبیا میں قذافی حکومت کا خاتمہ اور ملک پر اپنی پسند کی حکومت مسلط کرنا۔ ایران پر اقتصادی پابندیاں لگائیں اور اسکے اثاثے منجمد کیے۔پاک امریکہ تعلقات مختلف ادوار میں اتار چڑھاو¿ کا شکار رہے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے روس کی دعوت ٹھکرا کر امریکہ کا دورہ کیا اسی لئے روس ہم سے دور ہو گیا۔ ایوب خان کے دور میں امریکہ سے ہمارے تعلقات مثالی تھے بھٹو دور میں ہمارا جھکا امریکہ کی طرف تھا بعد میں بھٹو نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا۔ جنرل ضیاالحق ،نواز شریف اور بینظیر بھٹو بھی امریکی کیمپ میں رہے۔ صدر پرویز مشرف امریکی وزیر خارجہ کی ایک کال پر ڈھیر ہو گئے عمران خان بھی اپنے دور میں امریکہ نواز تھے۔ امریکی سفیر کے خط سیفر کو عوام میں لہرا کر امریکہ پر اپنی حکومت کےخلاف سازش کا الزام لگاتے رہے بعد میں اسے سیاسی بیان قرار دے دیا۔ مبینہ طور پر پی ٹی آئی امریکہ نے ٹرمپ کی انتخابی مہم میں دل کھول کر فنڈنگ کی اور لابنگ کے لئے مہنگی فرموں کی خدمات حاصل کیں اب بھی ٹرمپ سے بہت سی امیدیں لگائی ہوئی ہیں کہ کب امریکی صدر بانی پی ٹی آئی کے حق میں بیان دے گا اور ان کی مشکات آسان ہوں گی۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے باوجود ٹرمپ دنیا کی سپر پاور امریکہ کے صدر منتخب ہو گئے ۔ ٹرمپ نے صدارت کا عہدہ سنبھالتے ہی بہت سے ایگزیکٹو آرڈر جاری کئے جن میں غیر قانونی یا عارضی ویزہ رکھنے والے تارکین وطن کے امریکہ میں پیدا ہونے والے بچوں کی پدائشی شہریت کے حق کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ امریکی ایجنسیوں کو حکم دیا گیا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کی دستاویزات ضبط کر لیں ۔ امریکہ کی بائیس ڈیموکریٹک پارٹی کے حامیوں والی ریاستوں نے اس حکم کےخلاف عدالتوں سے رجوع کرکے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ امریکی صدر کو ائین میں ترمیم کئے بغیر ایسا حکم نامہ جاری کرنے کا اختیار نہیں ۔ امریکی آئین کی چود ھو یں ترمیم بھی اس کی اجازت نہیں دیتی۔ امریکی سپریم کورٹ غیر قانونی تارکین وطن کے بچوں کی شہریت کے حق میں پہلے ہی ایک رولنگ دے چکی ہے۔ درخواست میں عدالت کو صدارتی حکم کلعدم قرار دینے کےلئے کہا گیا ہے۔ امریکہ میں آباد وہ افغانی جو افغانستان میں امریکی فوج کےلئے کام کرتے رہے ہیں وہ اس لئے پریشان ہیں کہ اپنے ملک واپسی کی صورت میں طالبان حکومت ان سے برا سلوک کرے گی ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے خطاب میں امن کا نعرہ لگایا تھا اسلئے امید کی جانی چاہئے کہ ان کے دور میں غزہ میں مستقل جنگ بندی ہو جائے گی۔ شام میں طویل خانہ جنگی کا خاتمہ ہو گا اور اسرائیلی فوج غزہ سے نکل جائے گی۔