کالم

پاک روس تعلقات کا روشن مستقبل

حال ہی میں روسی نائب وزیر اعظم کا دورہ پاکستان کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل رہا ، معزز مہمان نے نہ صرف صدرمملکت آصف علی زرداری اور وزیر اعظم پاکستان شبہاز شریف سے ملاقات کی بلکہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر سے بھی ان کی بات چیت انتہائی تعمیری رہی ، نائب وزیر اعظم استحاق ڈار سے ملاقات میں پاکستان اور روس میں توانائی اور تجارت بڑھانے کی ضرورت پر اتفاق رائے سامنے آیا، الیکسی اوورچیک کا کہنا تھا کہ روس رواں برس برکس کی میزبانی کررہا ہے ، پاکستان نے برکس کی رکنیت کے لیے اپلائی کیا ہے ، ہم پاکستان کو مذکورہ تنظیم کا ممبر بنانے کی حمایت کرتے ہیں۔۔۔؛
تاریخی طور پر پاکستان اور روس کے تعلقات کا آغاز صدر ایوب خان کے دور میں ہوا، یہ 1960 تھا جب پاکستان نے اپنے ہاں تیل اور گیس کے زخائر دریافت کرنے کے لئے روس کے ساتھ معاہدہ کیا ، یاد رہے کہ ان دنوں روس اور امریکہ میں سرد جنگ عروج پر تھی ادھر پاکستان کے امریکہ سے قریبی تعلقات تھے شاید یہی سبب ہے کہ پاکستان اور روس میں وہ گرم جوشی پیدا نہ ہوسکی جس کی بجا طور پر ضرورت تھی ، پھر 1966 کے اعلان تاشقند کے بعد پاکستان اور روس کے تعلقات میں قربت دیکھنے میں آئی ، دونوں ملکوں میں ہتھیاروں کی خریدوفروخت کا معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں پاکستان نے روسی ساخت کے ٹنیک اور ہیلی کاپٹر خریدے ،دسمبر 1979 میں روس کی جانب سے افغانستان میں بلااشتعال فوجی مداخلت نے دونوں ممالک کے تعلقات میں سردمہری پیدا کردی ، پاکستان اور امریکہ نے افغان مہاجرین کی بھرپور مدد کی ، اسلام آباد نے فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار نبھایا جس کے نتیجے میں بالاآخر روس کو شکست و ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، عالمی تعلقات کے ماہرین متفق ہیں کہ ملکوں کے تعلقات باہمی مفادات پر مبنی ہوا کرتے ہیں، اس حقیقت سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ بین الاقوامی تعلقات میں نہ تو دوستیاں مستقل ہوتی ہیں اور نہ ہی دشمنیاں ، اس سیاسی کھیل میں جسے دوام حاصل ہے وہ ہر ملک کا مفاد ہے، سچ یہ ہے کہ اسی اصول کی روشنی میں ہر ریاست آگے بڑھتی ہے ،پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ عالمی ہی نہیں علاقائی طاقتوں کے ساتھ بھی بہتر تعلقات قائم کرنے پر یقین رکھتا ہے، پاکستان کی حالیہ خارجہ پالیسی کسی بھی بلاک میں اپنا وزن نہ ڈالنے کا پتہ دیتی ہے ، مثلا آج اسلام آباد کے تعلقات اگر چین کے ساتھ بہترین ہیں تو امریکہ سے بھی کءشعبوں میں دو طرفہ تعاون کو بڑھایا جارہا ہے ، ریکارڈ پر ہے کہ ماضی میں روس اور بھارت کے تعلقات مثالی رہے ،روس اور افغانستان کی جنگ میں جب پاکستان نے مجاہدین کی بھرپور انداز میں مدد کی تو یہ ماسکو کو ناگوار گزارا ، لاکھوں افغان مہاجرین کی آمد پر بھی روس نے نا پسندیدگی کا اظہار کیا ، ماضی کی پاکستان کی افغان پالیسی پر اعتراض کیا جاسکتا ہے مگر اس سچ کو جھٹلانا مشکل ہے کہ اسلام آباد نے ہر دور میں یہ کوشش ضرور کی کہ اس کے پڑوس میں جنگ کا خاتمہ جلد ازجلد ممکن ہو ، آج جب روس اور یوکرین کی جنگ جاری ہے تو اسلام آباد ایک سے زائد مرتبہ واشگاف الفاظ میں اپنی اس خواہش کا اظہار کرچکا کہ بات چیت کے ذریعے جاری بحران کو حل کیا جائے، درحقیقت پاکستان دل وجان سے اس پر یقین رکھتا ہے کہ جنگ شروع کرنے کا آپشن تو ہوتاہے مگر اس کا اختتام کسی ایک فریقی کی خواہشات کے مطابق نہیں ہوسکتا، شبہازشریف کا ویثرن ہے کہ وہ علاقائی سطح پر تجارت کے فروغ کے حامی ہیں ، وزیر اعظم پاکستان باخوبی آگاہ ہیں کہ عصر حاضر میں سیاست معیشت کے تابع ہوچکی ، آج کم وبیش دنیا کا ہر ملک اس بات کا خواہشمند ہے کہ وہ تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرکے سرخرو ہوجائے ، یہ بھی نہیں بھولنا چاہے کہ سیاسی اور معاشی استحکام کے حامل ممالک حریف ملکوں سے بھی تجارت کو بڑھا رہے ہیں، مثلا چین اور امریکہ کے تعلقات میں اتارچڑھاو سے کون واقف نہیں مگر بیجنگ اور واشنگٹن دونوں ہی بتدریج بات چیت کے زریعہ مسائل کو حل کرنے کی کوشش میں ہیں، کچھ ایسی صورت حال چین اور بھارت کے بیچ میں بھی ہے ، سنجیدہ سرحدی تنازعات کے باوجود دونوں ملکوں میں تجارت کا حجم بتدریج بڑھ رہا ہے ، یقینا پاکستان نے تاریخ سے سیکھا ہے ، آج اسلام آباد کی خواہش اور کوشش ہے کہ وہ خارجہ محاذ پر پختگی اور زمہ داری کا مظاہرہ کرے۔ اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں تناو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر علاقائی استحکام کو مضبوط نہیں ہونے دیتا ، پاکستان اب بھی متمنی ہے کہ جنوبی ایشیا کے بااثر ممالک بھارت کو مجبور کریں کہ وہ مقبوضہ وادی میں جاری مظالم بند کرکے سنجیدہ بات چیت کا آغاز کرے ، خوش قسمتی کے ساتھ روس پاکستان کی اس خواہش کا باخوبی ادارک رکھتا ہے ، ماسکو ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکا کہ پاکستان اور بھارت کو اپنے تنازعات بات چیت کے زریعہ حل کرنے چاہیے، اسی طرح چین بھی اسلام آباد اور بھارت میں تعمیری بات چیت کا حامی ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ بھارت کسی طور پر اپنی ہٹ رھرمی پر مبنی پالیسی سے تائب ہونے پر آمادہ نہیں جو یقینا تشویشناک ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے