کالم

” اماں چلی گئیں”

ظہور ندیم اردو زبان و ادبیات کے استاد ، شعر وسخن کے رمز شناس، عالمی ریاستی اور سیاسی تغیر و تبدل پر گہری نظر رکھنے والے دانشور ، اور چہار اطراف سے ارزاں ہونے والی بے پناہ محبت کے بہت بڑے ذخیرہ اندوز دوست اور دلدار ہیں۔ ایک مدت سے امریکہ میں مقیم اور کامیاب تجارت میں مصروف ہیں۔ اگرچہ دوستوں کے لیے ظہور ندیم کا تصور ایک ہنستے مسکراتے اور قہقہے لگاتے دوست کا ہے، لیکن ان کی سنجیدگی اور خاموشی میں بھی ایک جہان معنی آباد ہوتا ہے۔میں جانتا اور درست طور پر سمجھتا ہوں کہ ظہور ندیم ایک بہت بڑا ناول نگار ہے اور اس کے اطراف و جوانب موجود و متحرک سارے لوگ ان کی کہانی کے کردار ہیں۔ظہور ندیم ان تھک جدوجہد اور کم مثال محنت کی داستان بھی ہے۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ زندگی کے کٹھن راستوں اور دشوار حالات میں کامیاب اور بامراد رہنے والے ظہور ندیم کے سر پر یقینا اس کی ”اماں“کی دعاو¿ں کا سایہ رہا ہے ۔ہماری محفل ،ملاقات اور حال احوال فیس بک کے ڈرائنگ روم میں چلتا رہتا ہے۔ چند روز پہلے ظہور ندیم نے فیس بک پر ایک درد ناک پوسٹ لگائی تھی کہ ”اماں چلی گئیں“اس پوسٹ کے اختصار میں پوشیدہ رنج و الم کی شدت اتنی زیادہ تھی ، کہ اس نے دل چیر کر رکھ دیا۔ یہ ہزاروں میل دور سے ایک غمزدہ بیٹے کی صدائے درد ناک تھی ،اقبال نے سچ کہا ہے کہ؛
ذرہ ذرہ دہر کا زندانیِ تقدیر ہے
پرد مجبوری و بےچارگی تدبیر ہے
آسماں مجبور ہے، شمس و قمر مجبور ہیں
انجمِ سیماب پا رفتار پر مجبور ہیں
کہتے ہیں اور سچ ہی کہتے ہیں کہ مائیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں ، اسی طرح کسی ماں کے دنیا سے چلے جانے کا دکھ بھی سانجھا ہی ہوتا ہے ۔ظہور ندیم کے الم یعنی "اماں چلی گئیں "نے مجھے اپنا غم یاد دلا دیا ،جب قریبا بارہ سال پہلے مجھے اس صدمے سے گزرنا پڑا تھا۔فیصل آباد سے اسلام آباد تو ساڑھے تین گھنٹے کی مسافت پر ہے ،اس لیے میں اپنی اماں کا آخری دیدار کر سکا تھا۔لیکن مجھے اندازہ ہے کہ ظہور ندیم کو امریکہ سے پاکستان آتے ہوئے گریہ پیہم کی کیفیت میں جس درد سے گزرنا پڑا ہو گا ،وہ ان ساڑھے تین گھنٹوں کی ڈرائیونگ اور آنکھوں کے کناروں سے بہتے آنسووں کی تکلیف سے بہت زیادہ ہو گا۔پر کریں تو کیا کریں؟
نے مجالِ شکوہ ہے، نے طاقتِ گفتار ہے
زندگانی کیا ہے، اک طوقِ گلو افشار ہے!
قافلے میں غیرِ فریادِ درا کچھ بھی نہیں
اک متاعِ دید تر کے سوا کچھ بھی نہیں
میں تو اپنی منتظر ماں کا آخری دیدار کر پایا تھا وہ پہلا موقع تھا جب میرے سامنے آنے پر میری ماں نے اٹھ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے میرا چہرہ تھامتے ہوئے میری پیشانی پر پیار نہیں کیا تھا۔میں وہ تمام باتیں نہیں کر سکا تھا ،جو میں اس وقت اپنی ماں سے کہنا چاہتا تھا۔ میں نے کل جب ظہور ندیم کی پوسٹ پر لگی تصویر میں انہیں اپنی اماں کی لحد کے سرہانے مغموم بیٹھے دیکھا تو مجھے وہ منظر یاد آگیا جب کمال درجے کے اطمینان کے ساتھ اپنی آنکھیں بند کیئے ابدی سکون کے ساتھ لیٹی اپنی ماں کے پاس بیٹھ کر اپنے آنسوو¿ں سے ان کی یاد کے قدم دھو رہا تھا اور دل ہی دل میں ان سے باتیں کیے جا رہا تھا۔میری ماں مجھے سن رہی تھی،مجھے یقین ہے کہ مجھے دیکھ بھی رہی ہو گی۔مجھے پورا یقین ہے کہ ظہور ندیم کی اماں اپنی لحد کے ساتھ بیٹھے غم زدہ بیٹے کے دل کی باتیں اسی طرح سن سے رہی ہوں گی ،جس طرح ان کے وطن آنے پر ،انہیں اپنے پاس بٹھا کر سنا کرتی تھیں ۔اس تصویر کے ساتھ ظہور ندیم نے لکھا تھا "میرے گاو¿ں پہنچنے سے پہلے ہی اماں شہرِ خموشاں میں جا بسیں ۔”اس جملے میں چھپی حسرت ، محرومی اور دکھ کی مقدار کا تعین ممکن ہی نہیں۔ اس تصویر میں صاف نظر آرہا تھا کہ ظہور ندیم اپنے فراواں اشکوں سے اپنی اماں کی یاد کے قدم دھو رہے تھے، اور سوچ رہے تھے کہ؛
کس کو اب ہوگا وطن میں آہ! میرا انتظار
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بےقرار
خاکِ مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آں گا
اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آں گا!
تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر مِرے اجداد کا سرمای عزت ہوا
دفترِ ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات
تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات
عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی
میں تری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی
مجھے کبھی ظہور ندیم کی اماں سے ملنے کا شرف حاصل نہیں ہوا ، لیکن مجھے علم ہے کہ ایک ماں دوسری ماں جیسی ہی ہوتی ہے ۔مجھے اپنی ماں کے ساتھ گزری زندگی کا ایک ایک پل ایک ایک لمحہ یاد ہے ۔شائد لوگوں کو اس بات کا ادراک نہ ہو، پر امر واقعہ یہ ہے کہ بچے کتنے بھی بڑے کیوں نہ ہو جائیں، اپنی ماں سے چھوٹے ہی رہتے ہیں ۔ظہور ندیم کی ولادت پر ان کی اماں جتنا خوش ہوئی ہونگی ، ان کا یہ ننھا ظہور ان کے لحد کے سرہانے بیٹھا اتنا ہی مغموم اور اداس نظر آ رہا تھا ۔یاد رکھنا چاہئے کہ ایک بڑا آدمی بھی ماں کے لیے ایک طفل شیر خوار ہی ہوتا ہے ،کچھ یہی وجہ ہے کہ مائیں جب بھی اپنے بچوں کو دیکھتی یا ان کے بارے میں سوچتی ہیں تو ان کے لبوں پر صرف اور صرف دعائیں ہی ہوتی ہیں ۔ یار ظہور ندیم میں جب اسلام آباد سے اپنی ماں کو فون کرتا تھا تو وہ مسلسل دعائیں دیئے جاتی تھیں ۔اور سچ بتاں ان کی دعاو¿ں نے مجھے کرہ ارض کا سب سے زیادہ بے خوف انسان بنا رکھا تھا ۔ میں آپ سے یہ تو نہیں پوچھتا کہ آپ جب اپنی اماں کو فون کرتے تھے تو وہ آپ سے کیا باتیں کرتی ہونگی، پر میں ایک بیٹے کے طور پر جانتا ہوں کہ مائیں دور رہنے والے بچوں سے محبت بھی کچھ زیادہ ہی کرتی ہیں اور یہ بھی کہ اپنی دعاو¿ں کی زبان سے اپنے لاڈلے بچوں سے کیا باتیں کیا کرتی ہیں۔دنیا میں ماں کی محفل ہی وہ واحد جگہ ہوتی ہے جس میں ہم ایک لاڈلے سے بچے کی طرح جو چاہیں کہہ سکتے ہیں ،یا جو چاہے کر سکتے ہیں۔ہم جیسے جیسے عمر میں بڑے ہوتے ہیں ،اپنی ماں سے ہماری محبت اسی تناسب سے بڑھتی رہتی ہے۔
یار ظہور ندیم میرا خیال ہے کہ آپ کے زمانے میں بھی بی اے اردو کے نصاب میں میں اقبال کی طویل نظم والدہ مرحومہ کی یاد میں شامل رہی ہو گی۔ میرے نصاب میں تو تھی اور میں نے کتاب کے نظم والے صفحات اسٹیپلر سے بند کر رکھے تھے۔میں نے گورنمنٹ کالج لاہیلپور میں اپنے اردو کے استاد پروفیسر عصت اللہ خان صاحب سے پوچھا تھا کہ سر بی اے میں پڑھنے والے بچوں کی مائیں تو حیات ہوتی ہیں ،وہ اتنے المناک تجربے کو کیسے سمجھ سکتے ہیں۔میں تو سر والدہ کے ساتھ مرحومہ پڑھنا یا لکھنا تک گوارا نہیں کر سکتا۔ کیا بی اے کے نصاب میں اقبال کی کوئی دوسری طویل نظم شامل نہیں کی جاسکتی ۔استاد نے نم آنکھوں کے ساتھ خاموشی اختیار کی تھی۔اب سوچتا ہوں کہ شائد اس وقت استاد کی نم آنکھوں کا جواب یہ تھا کہ احمق بی اے ہی کیا،کسی بھی عمر میں ماں کی وفات کا تصور بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔پر ظہور ندیم بعد میں جب یہ سانحہ مجھ پر گزرا تو پھر اقبال کی یہی طویل نظم میرے درد کا درماں بن گئی تھی ۔میں اسے پڑھتا تھا اور جہاں اشکوں کی فراوانی تحریر کر دھندلا دیتی ، کتاب بند کر دیتا ۔آپ کی المناک پوسٹ”اماں چلی گئیں” پڑھ کر اور پھر چند روز بعد آپ کی والدہ مرحومہ کی لحد کے ساتھ غم زدہ تصویر دیکھ کر ہاتھ بے اختیار کلیات اقبال کی طرف بڑھ گئے ،بانگ درا کی وہ نظم جسے میں بی اے اردو کے نصاب سے حذف کرانا چاہتا تھا ، اب ایسے ہی غم میں مجھے دلاسا دیتی نظر آتی ہے۔میں تو یوں کہوں گا ظہور ندیم ! کہ آپ کی والدہ کی وفات کی خبر سے مجھے مغموم دیکھ کر اس نظم نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے دلاسا دیا ،کہا کہ دوست کے درد کو اپنے درد جیسا سمجھنا ہی اچھی اور احسن بات ہے ۔لیکن یہی وقت ہے جب غم سے نڈھال رفیق کے کندھے پر ہاتھ رکھا جائے ، دلاسا دیا جائے ، اسے ضبط غم کا حوصلہ دیا جائے۔صبر کی دعا ارزاں کی جائے ۔ اسے بتایا اور سمجھایا جائے کہ ماں کے مبارک وجود کی تاثیر دعا کی صورت ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے گی،تحقیق ماں کی محبت اپنے بچوں کو ہمیشہ اپنے حصار میں رکھتی ہے۔
جوہرِ انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں
آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں
ماں سے رشتہ محبت کا اور ماں کا اپنے بچوں سے تعلق ایثار اور وفا کا ہوتا ہے۔اس تعلق کو فنا نہیں ، ماں اب ہمیشہ تصور اور تصویر میں آپ کے پاس اور آپ کے ساتھ رہے گی۔ بچے ماں کی دعاو¿ں کا عنوان ہوتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ بچوں کے دل کی تسکین بھی اپنی ماں کےلئے کی گئی دعا ہی میں پنہاں ہوتی ہے۔
زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر
مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبز نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے