کالم

عورت مارچ،حقوق نسواں

آٹھ مارچ کو ہونے والے عورت مار چ پر اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور ہنوز اس پر قلم آرائی جاری ہے ۔پاکستان مےں عورت مارچ پانچ سال سے ہو رہا ہے ۔اسکے مقاصد مےں خواتےن کے حقوق پر روشنی ڈالنا ، ان پرروا سماج مےں ہونے والے تشدد سے انہےں بچانا اور اپنے حقوق سے آگاہی دلانا ہے۔خواتےن کے حقوق کے علمبردار رہنماﺅں کی طرف سے آئےنی حقوق کے حصول اور انصاف کی فراہمی کےلئے نعرے اور بےانات تو قابل قبول تھے لےکن جب بات برابری کے حق کی بجائے مےرے حق پر آ گئی اور جلوس مےں اےسے نعروں کی آواز ابھری کہ ”مےرا جسم مےری مرضی“ تو اس نے متنازعہ شکل اختےار کر لی ۔ اےک اےنکراور خاتون کے مابےن تلخ مکالمہ اےک لائےو ٹی وی پروگرام کے کلپ کی صورت مےں سوشل مےڈےا کے ذرےعے منظر عام پر آےا جس مےں ”مےری مرضی “کا استعمال ٹی وی کی اس گفتگو مےں ہوا تھا ۔ٹی وی کے اس پروگرام مےں اےک مرد اور خاتون اپنے اپنے خےالات کا اظہار کر رہے تھے ۔گفتگو کا آغاز مہذبانہ تھا لےکن اچانک تلخ ہو گئی اور اےک دوسرے پر الفاظ کے تےرو نشتر برسائے جانے لگے بقول شاعر ،رنج کی جب گفتگو ہونے لگی ،آپ سے تم ہوئے تم سے تو ہونے لگی۔اگرچہ خاتون کے متعلق خبر ہے کہ وہ غےر مسلم تھی لےکن اس کے خےالات اور نازےبا نعروں کو اےک اسلامی ملک و سماج مےں لبرل ازم کے نام پر پھےلنے اور پنپنے کی اجازت کےسے دی جا سکتی ہے ۔خواتےن کے حقوق پر بات کرنا اور ان کے حقوق اجاگر کرنے کی بات کرنا معےوب بات نہےں لےکن اس کےلئے اےک دوسرے کے مخالف اور متحارب پلےٹ فارم استعمال کرنا اور اےسے نعرے اور سلوگن بلند کرنا جو دےن اسلام کی لافانی اور ابدی تعلےمات کے ہی منافی ہوں ےہ کےسی آزادی ہے ؟آزادی کی بھی اےک حد ہوتی ہے ۔لبرل ازم کے علمبرداروں کی من پسند آزادی کا اس ملک کی آزادی سے کوئی تعلق نہےں ۔باقی اگر حقوق کی بات ہے تو اسلام نے عورتوں کو دنےا کے تمام مذاہب اور معاشروں سے زےادہ حقوق دےے ہےں ۔ عورت اور مرد کا رشتہ ازل سے ہی اطمےنان و سکون کا باعث بنتا چلا آےا ہے لےکن ہمےشہ سے انسان اپنی ہوس کے تابع ہو کر اس محترم رشتے کی تذلےل کا باعث بنتا چلا آےا ہے ۔قدرت نے مرد اور عورت کو اےک دوسرے کےلئے بناےا اور پےغام دےا کہ عورتےں تمہارے لئے کھےتی کی مانند ہےں بشرطےکہ تم اپنی حدود پہچانو اور ہوس کے تابع ہو کر اندھے نہ ہو جاﺅ ۔اسی طرح عورتوں کےلئے فرماےا کہ اپنی زےنت کی جگہوں کی نمائش نہ کرو بلکہ ان کی حفاظت کرو لےکن صد افسوس کہ حضرت انسان اپنی حدود پر قائم نہ رہ سکا ،نہ صرف احکامات خدا وندی کی دھجےاں بکھےرےں بلکہ اپنے اعمال سے اپنے لئے مصائب و آلام کا باعث بنا ۔آج کے انسان کی وحشت ناک ہوس اور خواتےن کی بڑھتی ہوئی بے حےائی دےکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ ےہی انسان سجود ملائکہ تھا اور ےہی خواتےن تھےں جو شرم و حےا اور عزت و آبرو کو اپنا زےور گردانتی تھےں ۔مےڈےا نے عورت کو کمرشلائز کر دےا ۔اےن جی اوز نے ان کے حقوق کے نعرے لگا کر گھر کی عزت کو سڑکوں اور چوراہوں پر جمع کر لےا اور فطری شرم و حےا کو تہس نہس کر دےا ۔اگرچہ زندگی کے ہر شعبے مےں خواتےن کا متحرک ہونا خوش آئند ہے لےکن اس شرط کے ساتھ کہ اپنی حدود کو پہچانےں اور اپنی شرم و حےا کو مد نظر رکھےں ۔جہاں اسلام عورت اور مرد کے درمےان جنسی تعلقات کی تشرےح کرتا ہے وہاں نکاح کی ترغےب بھی دےتا ہے ۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ےورپی اقوام اخلاقےات کی بلندےوں تک پہنچ چکے ہےں تو عرض ہے کہ کےا مشکوک النسل بچے بھی اخلاقےات کا تخفہ ہےں ۔ےورپ مےں اگر کوئی خاتون اپنے بچے کو اس کے حقےقی باپ کے بارے مےں نہےں بتا سکتی تو ےہ اخلاقےات کا کونسا معےار ہے ۔ےہ درست ہے ےورپی اقوام اپنے ممالک کی طوائفو ں کا طبی معائنہ کراتے ہےں لےکن اسلام تو سرے سے طوائف کے وجود سے ہی انکاری ہے ۔خواتےن کے خلاف جرائم اور تشدد عالمی مسئلہ ہے انسانی حقوق کی تنظےمےں اور اےن جی اوز صرف پاکستان کو ہی بدنام کرنے پر عمل پےرا ہےں ۔امرےکہ کی طوفان زدہ رےاست اورلےنز مےں خواتےن کے ساتھ جو ہوا سب نے ٹی وی پر دےکھا۔فرانس مےں خواتےن کے ساتھ زےادتےوں کے ہر سال 25ہزار واقعات ہوتے ہےں ،بھارت سمےت دنےا کے دےگر ممالک مےں بھی اس سے کہےں زےادہ واقعات ہوتے ہےں ۔کےنےڈا مےں 29فےصد خواتےن سولہ سال کے بعد جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہےں ۔اےک بےن الاقوامی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنےا بھر مےں ہر سال 6سے 8لاکھ عورتےں اور بچے جسم فروشی کےلئے انسانی سمگلنگ مےں ملوث مافےا کی بھےنٹ چڑھتے ہےں جبکہ مزےد لاکھوں اپنے ملک کے اندر جسم فروشی کے دھندے کےلئے اےک جگہ سے دوسری جگہ پہنچائے جاتے ہےں ۔امرےکی محکمہ انصاف کی جانب سے جاری اےک رپورٹ مےں بتاےا گےا کہ ہر سال 14ہزار 5سو سے لےکر 17ہزار 5سو افراد سمگل کر کے امرےکہ پہنچائے جاتے ہےں ۔ان مےں سے 33فےصد عورتوں کو تجارتی پےمانے پر جسم فروشی پر مجبور کےا جاتا ہے ،جن مےںسے23فےصد کی عمرےں18سال سے کم ہوتی ہےں ۔ےوں تو امرےکہ و مغرب مےں مساوی انسانی حقوق کے نعرے زوروشور سے لگائے جاتے ہےں اور ان کے نشرےاتی ادارے بھی مساوی حقوق نسواں کے حوالے سے طول طوےل پروگرام اور ڈاکو منٹرےز بنانے مےں سر گرم و منہمک نظر آتے ہےں لےکن عملی طور پر صورتحال دےگر ہے۔ہمارے ہاں سماج اور سےاست مےں عورت کو موثر اور بھرپور کردار ادا کرنے کے مواقع فراہم کئے گئے ہےں ۔امرےکہ ،فرانس ،بھارت ،برطانےہ ،جاپان کہےں بھی عورتوں کو مخصوص نشستےں حاصل نہےں ۔دنےا کا واحد ملک پاکستان ہے جہاں کی جمہورےت مےں اقلےتوں کو دوہرے ووٹ کا حق حاصل ہے اور عورتوں کو مخصوص نشستوں پر الےکشن جےتنے کا بھی پورا حق حاصل ہے۔پاکستان کا شمار ےقےنا دنےا کے ان ممالک مےں ہوتا ہے جہاں سےاست مےں عورتوں کی شرکت ،شراکت ،شمولےت اور دلچسپی مےں اضافہ ہوا ہے ۔اس تمام کے باوجود ےہ نہےں کہا جا سکتا کہ معاشرے اور مملکت سے جنسی امتےاز نابود ہو چکا ہے ۔جاگےر دارانہ ماحول اور رواےات کے تسلط کی وجہ سے خواتےن کو اےک سازش کے تحت تعلےم سے دور رکھا جاتا ہے ۔سچ تو ےہ ہے خواتےن کو حقےقی آزادی دےنے کےلئے جاگےر دارانہ نظام کی کلی بساط لپےٹنا ہو گی ۔جب تک ےہ دقےانوسی استحصالی نظام اور اس کا بالا دستانہ تسلط برقرار ہے پسماندہ رواےات ختم نہےں ہوں گی اور خواتےن تذلےل کا شکار ہوتی رہےں گی۔ونی، سوارا،کاروکاری،قرآن سے شادی اور عورت کو جائےداد سے محروم کرنا جاگےردارانہ نظام کی فرسودہ باقےات ہےں ۔جب تک جاگےردارانہ نظام اور اس کے محافظ موجود ہےں ےہ ناپسندےدہ رسومات اور رواج باقی رہےں گے ۔ےہ اےک ناخوشگوار اذےت ناک سچائی ہے کہ وطن عزےز مےں مظلوم اور محروم طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتےن کی خوشحالی اور بہبود کےلئے کام کرنے والی معروف اور مشہور فارن فنڈڈ اےن جی اوز نے کوئی عملی اقدام نہےںاٹھاےا ماسوائے زبانی تقرےری جمع خرچ کے۔ان فارن فنڈڈ اےن جی اوز کو جلسے جلوسوں اور سمےنارز منعقد کرنے کی بجائے اگر وہ خواتےن کی عزت اور حقوق کی بحالی کا حقےقی عزم رکھتی ہےں تو انہےں ٹےکسٹائل ،گارمنٹس ،لےدر، مےڈےسن ،تعمےراتی صنعت پےپر ملز ،ربڑ ،کوئلہ ،پلاسٹک ،فوڈ بےورےج اور دےگر صنعتوں ،فےکٹرےوں اور اداروں مےں کام کرنے والی خواتےن کے مناسب معاوضہ کی فراہمی کو ےقےنی بنوانے کےلئے عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے ۔ہر سال دنےا کے مختلف ممالک کی طرح پاکستان مےں بھی عورت مارچ کا انعقاد کےا جاتا ہے اور اس موقع پر جن حقوق کےلئے آواز کو اٹھاےا جاتا ہے وہ کسی طرح بھی قابل قبول کےا قابل ذکر بھی نہےں ہےں ۔اس موقع پر اختلاط ،اور ٹرانس جےنڈر ازم کے نعرے لگا کر دراصل عورت کی توہےن کی جاتی ہے ۔اﷲ تعالیٰ ہم سب کو ان حقوق پر اکتفا کرنے کی توفےق دے جو دےن اسلام اور کتاب و سنت نے عطا کےے ہےں اور ان تمام مذموم اور مسموم نعروں سے محفوظ رکھے جو عورت کی بے مہابہ آزادی کی آڑ مےں اس کو درندوں کےلئے اےک شکار کی حےثےت دےنا چاہتے ہےں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri