سگنل فری ٹریفک کا انتظام نہایت ہی ماڈرن ٹریفک ڈسپلن، وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ یہ ایک اچھی اور منظم اقوام کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ کسی قوم کا مزاج اسکا عمومی ڈسپلن دیکھنا ہو تو اس کی ٹریفک اسکی سڑکوں پر گاڑیوں کی روانی سے پرکھو۔ یعنی اس ملک کی سڑکیں کیسی ہیں اوراس پر چلتی گاڑیاں اور سب سے اہم انکو چلانے اور چلوانے والے کیسا رویہ رکھتے ہیں۔ جب سے ٹریفک سنتری کا ہاتھ کے ساتھ ٹریفک کنٹرول کے بعد بتی اشاروں والا نظام متروک ہوتا جا رہا ہے، ٹریفک سگنل فری شاہراہوں کا رواج آجکل زور پکڑتا جا رہا ہے۔ کراچی، لاہور راولپنڈی اور اسلام آباد میں ایسی سڑکیں تعمیر کر دی گئی ہیں جن پر اب ٹریفک کسی خاص رکاوٹ کے رات دن رواں دواں رہتی ہے اور یہ ہر لحاظ سے موزوں بھی ہے اور فائدہ مند بھی لیکن جڑواں شہروں میں تین چار”پروٹیکٹڈ یوٹرنز“اس وقت شہریوں کے لیے مکمل وبالِ جان بن چکے ہیں۔ مثال کے طور پر موٹر وے سے اتر کر سری نگر ہائی وے پر پہلا یو ٹرن جی الیون، پھر جی ٹین کے قریب پڑتا ہے،نئے کورٹ کمپلیکس کے قریب، یہ دونوں یوٹرنز اتنے خطرناک طریقے سے بنائے گئے ہیں کہ کئی سال گزرنے کے باوجود آج بھی گاڑیاں لاتعداد حادثات کا شکار ہو جاتی ہیں،وہاں پر لگے نشانات مناسب رہنمائی کی بجائے اچانک ایک کنفیوژن سا پیدا کر دیتے ہیں کہ اب کیا کیا جائے،یوں تیز رفتار گاڑیوں کو ادھر ادھر کرنے کے لئے گاڑی والے درمیانی دیوار کے اندر گھس جاتے ہیں، جس سے انسانی اور مالی نقصان کئی دفعہ ہو چکا ہے لیکن انتظامیہ شاید کسی بڑے حادثے کے انتظار میں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیئے بیٹھی ہے۔ تقسیمی پٹی رات کو تو نظر ہی نہیں آتی اور سیدھے جانے والے کئی کئی دفعہ یو ٹرن سے یو ٹرن کے درمیان ہی گھومتے رہتے ہیں۔ کئی دفعہ سیدھا جانے والا یو ٹرن کے نزدیک پہنچ کر دیکھتا ہے کہ وہ تو یو ٹرن والی لین سے اب باہر نکلتا ہے تو حادثہ ہو سکتا ہے، کئی بے چارے تو یو ٹرن کے اندر ہی سے ریسورس لگا کر مڑتے ہوئے دوسروں کے لیے پریشانی کا باعث بن جاتے ہیں کیونکہ وہ پھر سے ایک میلوں لمبا یو ٹرن لے کر واپس آنے کی بجائے اکثر رسک لیتے نظر آتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ٹریفک پولیس اپنا یہ گورکھ دھندہ بچھا کر تقریبا ًفارغ ہو چکی ہے۔ ہاں جب کبھی کوئی ڈیوائڈر سے ٹکراتا ہے تو ٹریفک والے آ جاتے ہیں گونگلووں سے مٹی جھاڑنے اور پولیس کارروائیاں کرنے۔ متاثرین چونکہ فوری جان خلاصی چاہتے ہیں اور وہ چکروں میں نہیں پڑنا چاہتے اس لیے وہ نکلنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور اس لیئے متعلقہ محکمے جواب دہی سے اکثر بچ جاتے ہیں وگرنہ اگر ایسا یورپ میں ہوتا جہاں لا آف ٹارٹ اتنا مضبوط ہے کہ محکمہ شاہرات اور انکے نکمے کنسلٹنٹس کب کے اندر یا ہرجانے ادا کرتے پھکڑ ہو چکے ہوتے۔ اگر کسی نے میری بات کی تصدیق کرنی ہے تو وہ ان پروٹیکٹڈ یو ٹرنز پر جا کر دیکھ سکتا ہے کہ ڈیوائڈرز کیسے ٹوٹے پڑے ہیں۔ ٹوٹے شیشے کرچیاں تک اٹھانے کا کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں جو یہ کچرا دیگر گاڑیوں کے ٹائروں کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتا ہے رات کو ایک بتی تک یہ روشن نہیں رکھتے جو جلتی بجھتی خطرے کی آگاہی کا کام دے سکے۔ اور دوسری بڑی انکی خامی یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر ہیں اور منزل مقصود تک پہنچ پانے میں لوگوں کو کئی کئی کلو میٹر فالتو چلنا پڑتا ہے۔ یہ بھی انکے کنسلٹنٹس کی ناکامی ہے، کیا انہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ پیٹرول ڈیزل ہم باہر سے نقد ڈالروں کی صورت میں منگواتے ہیں جن ڈالروں کی خاطر ہم ملکوں ملکوں بھیک مانگتے پھر رہے ہیں اور ہمارے ملک کا سب سے بڑا امپورٹ بل اسی تیل کی درآمد ہے۔اس طرح آجکل ایک یو ٹرن ڈی ایچ اے والوں نے ہائی کورٹ راولپنڈی کے نزدیک بنایا ہے جو اتنا خطرناک ہے کہ اس پر پہلے دن ہی دو چار حادثے ہو گئے، لوگ زخمی اور گاڑیاں تباہ ہو گئیں لیکن کسی نے ان سے پوچھنے کی جسارت ہی نہیں کی کہ موت کی یہ بساط کس ارسطو کے کہنے پر آپ نے راہ چلتے راستے میں بچھا رکھی ہے۔ یہ یو ٹرن ایک موڑ پر بنایا گیا جو اوپر سے رفتار میں آنے والوں کو نظر ہی نہیں آتا اور اچانک گاڑیاں اس سے ٹکرا جاتی ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ایک طرف الٹا سیدھا موڑ بنا دیا گیا ہے اور دوسری طرف گہری کھائی۔یہاں یو ٹرن بھی بن سکتا تھا اور حادثے بھی نہ ہوتے اگر انتظامیہ ذرا عقل سے کام لیتی۔ بحرطور یہاں ڈی ایچ اے نے خاصی اکھاڑ پچھاڑ مچا رکھی ہے، کچھ سمجھ نہیں آرہا یہ لوگ کیا سے کیا بنا رہے ہیں، جب کام ختم ہو گا تو پھر کچھ صحیح صورتحال سامنے آئے گی۔ پروٹیکٹڈ یو ٹرن نام تو بہت ہی اچھا ہے لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس کا کام نا صرف جانی نقصان کا سبب بن رہا بلکہ پیٹرول اور ڈیزل کی بھی بے تحاشہ کھپت کا موجب بھی بن چکا ہے، لہذا ارباب بست و کشاد آنکھیں کھولیں اور اس مسئلے کو فوری حل کریں۔