کالم

چین نے بھارتی علاقوںکے نام تبدیل کردیے

چین نے متنازع سرحدی علاقے پر خودمختاری کا دعویٰ کرنے والے بھارت کے 30 دیہاتوں، دریاو¿ں اور جھیلوں کے نام تبدیل کر دیے ہیں ۔ چین نے بھارت کے ساتھ سرحدی کشیدگی کے درمیان بھارتی ریاست ارونا چل پردیش کا نام تبدیل کرکے زنگنان رکھ دیا ۔زنگنان سے متصل 30 دیگر علاقوں کے نام بھی تبدیل کردئیے گئے ۔
چین کی وزارت برائے شہری امور کے مطابق چین نے ارونا چل پردیش کے چینی نام زنگنان میں 30 مقامات کے ناموں کو معیاری بنایا ہے ۔ناموں میں دو زمینی مقامات، دو شہر، پانچ چوٹیاں اور دو دریاو¿ں کے نام شامل ہیں۔2017 اور 2021 میں بھی جارحانہ بھارتی اقدامات کے جواب میں چین اروناچل پردیش کے علاقوں کے نام تبدیل کر چکا ہے۔ اب تک چین اروناچل پردیش کے 33 مقامات کا نام تبدیل کر چکا ہے۔
متنازع سرحدی علاقوں کے حوالے سے چین اور بھارت میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے ۔ بھارتی حکام کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات آنے کے بعد چینی حکام نے بھارت کو تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے سچائی تسلیم کرنے کو کہا ۔
دوسری جانب چینی علاقے کا مکمل قبضہ حاصل کرنے کے لئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اروناچل پردیش کا دورہ کیا ۔ مودی نے دورے کے دوران چینی علاقے زنگنان کی 13 ہزار فٹ کی بلندی پر پہاڑ میں بنائی گئی اسٹریٹجک سیلا ٹنل کا افتتاح کیا ۔ چین نے بھارتی وزیراعظم کے دورے پر شدید سفارتی احتجاج ریکارڈ کروایا ۔اس کے جواب میں چین کی وزارت خارجہ نے کہا کہ زنگنان چینی علاقہ ہے ۔ چینی حکومت نے کبھی بھی اروناچل پردیش پر بھارت کے نام نہاد دعویٰ کو تسلیم نہیں کیا اور اس کی سختی سے مخالفت کی ہے ۔ بھارت کو چین میں زنگنان کے علاقے میں من مانے طور پر ترقی دینے کا کوئی حق نہیں ہے ۔چینی حکام کے اقدامات کے بعد مودی سرکار میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔بھارتی حکام نے واویلا کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین کی طرف سے اقدامات بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور متنازعہ علاقے کی حیثیت تبدیل کرنے کی ناجائز کوشش ہے۔ ہندوستان کے سمجھدار شہریوں کا کہنا ہے کہ مودی کی غلط پالیسیوں نے ہندوستان کو کہیں کا نہ چھوڑا، کیا مودی ہندوستان کو سپر پاورز کے ابھرتے عالمی تنازعہ کے ایندھن میں جھونک دے گا؟۔
2020ءمیں بھارت کی جانب سے لداخ کے مقام پر شرانگیزی پھیلانے کے بعد دونوں ممالک کی فوجوں کی جھڑپوں کے نتیجے میں تعلقات خراب ہوئے، دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تناو¿کے پیشِ نظر 70ہزار بھارتی فوجی مسلسل پانچویں سال بھی سرحد پر موجود ہیں۔
چین ماضی میں بھی بھارتی رہنماو¿ں کے اروناچل پردیش کے دوروں پر اعتراض کرتا آیا ہے۔ گزشتہ برس اگست میں بھارت نے ان رپورٹس پر بیجنگ سے احتجاج کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ چین نے ایک نیا نقشہ جاری کیا ہے جس میں بھارتی ریاست کو چین کے علاقے کے طور پر دکھایا گیا ہے۔
ایشیا کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان تعلقات 2020 میں لداخ میں ہونے والی سرحدی جھڑپ کے بعد سے چھ دہائیوں کی سب سے کم سطح پر ہیں۔ اس جھڑپ میں بھارت کے 20 اور چین کے چار فوجی ہلاک ہوئے تھے۔اس کشیدگی کے بعد سے دونوں ممالک نے اپنی سرحد پر ہزاروں فوجیوں کو تعینات کیا تھا جن کے پاس لڑاکا طیارے، آرٹلری اور ٹینکس بھی موجود تھے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے فریقین کی جانب سے کشیدگی کم کرنے کی کوششیں بڑی حد تک ناکام رہی ہیں۔ اگرچہ سرحد پر فوج چند فرکشن پوائنٹس سے پیچھے ہٹی ہے لیکن اب بھی بڑی تعداد میں اہلکار سرحد پر تعینات ہیں۔ بھارت اور چین کے درمیان تعلقات بدستور سرد ہیں اور 2020 کے بعد سے فوجیوں کے انخلا پر دونوں ممالک کے فوجی کمانڈروں کے درمیان بات چیت کے 21 دور ہوئے لیکن فوجیوں کی بڑے پیمانے پر واپسی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔
بھارت اس وقت سخت مشکل میں ہے کیونکہ حال ہی میں لداخ پر قبضے کے بعد چین نے اروناچل پردیش کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس بات کی تصدیق بھارتی میڈیا خود کرردہا ہے۔ سوشل میڈیا پرکچھ تصاویر بھی بھارتی میڈیا کی طرف سے شیئر کی گئی ہیں جس میں دکھایا گیا ہے کہ چینی فوج نے ہماچل پردیش کے ایک حصے پرقبضہ کرلیا ہے۔اگر یہی صورتحال رہی تو لداخ کے بعد دیگر علاقے بھی بہت جلد دوبارہ چین کا حصہ بن جائیں گے ۔ پچھلے دنوں بھارت کو لداخ کے محاذ پرجوشکست ہوئی ہے بھارتی فوج پراس کے خوف کے سائے ابھی باقی تھے کہ ہماچل پردیش کے کچھ حصے پرچینی فوج کے قبضے کی خبرنے بھارتیوں کےاوسان خطا کردیئے ہیں۔اروناچل پردیش کا پرانا نام ”شمال مشرقی سرحدی ایجنسی“ تھا جسے 1972 میں بدل کہ اروناچل پردیش کر دیا گیا۔ فروری 1987 کو اسے ”یونین“ کی بجائے بھارت کی ریاست کا درجہ ملا۔ اروناچل پردیش میں بہت سی علیحدگی پسند تحریکیں ہیں جو برسوں سے بھارتی تسلط سے آزادی چاہتی ہیں۔ ان میں ”نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالینڈ“ اور”اروناچل ڈریگن فورس“ سرِفہرست ہیں۔ یہ تحریکیں علاقے کو آزاد اور خودمختار دیکھنا چاہتی ہیں۔ اروناچل ڈریگن فورس جسے ”ایسٹ انڈیا لبریشن فرنٹ“ بھی کہا جاتا ہے، ایک مسلح تنظیم ہے جس کا مقصد ایک ایسی آزاد ریاست کا قیام ہے جیسی برٹش راج میں ”برٹش تولا کاو¿نٹی“ تھی جس میں اروناچل پردیش کے ساتھ آسام بھی شامل تھا۔ بھارت کا الزام ہے کہ ان تنظیموں کو چین کی حمایت حاصل ہے۔ آسام اور دیگر ریاستوں سے اروناچل پردیش میں داخل ہونے کے لیے بھی خاص اجازت نامہ درکار ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri