کالم

26ویں آئینی ترمیم ۔جمہوری کامیابی!

گزشتہ دِنوں وطن عزیز پاکستان کی قومی اسمبلی میں 26ویں آئینی ترمیم اتفاق رائے سے منظور کرلی گئی ۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑ نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں مزید ترمیم کرنے کا بل 26ویں آئینی ترمیم بل 2024 سینیٹ کی منظور کردہ صورت میں زیر غور لانے کی تحریک پیش کی۔اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیراعظم نزیر تارڑ نے بل کے اغراض و مقاصد بتاتے ہوئے کہا کہ 2006 میں بے نظیر بھٹو اور نوازشریف نے میثاق جمہوریت پر دستخط کئے جس کے کئی نکات پر 18ویں ترمیم کے ذریعے عمل کیا گیا تاہم بعد ازاں ایک پٹیشن کے ذریعے اس کو چیلنج کیا گیا اور پھر 19ویں ترمیم منظور کرائی گئی جس کے نتیجے میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری کے شفاف نظام پر حرف آیا۔انہوں نے کہاکہ اب پھر اس کو درست کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس کا بیڑاچیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بھی اٹھایا۔ گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ سے وزیراعظم شہبازشریف اور بلاول بھٹو کی زیر قیادت اتحادی جماعتوں نے سر جوڑے، خورشید شاہ کی سربراہی میں خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے اس کی عرق ریزی کی جس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی نمائندگی موجود تھی۔آج سینیٹ سے یہ ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کرلی گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ان آئینی ترامیم میں پہلی بار صاف ماحول پر بھی توجہ مرکوز کی گئی ہے اور اس کے لیے آرٹیکل 9اے متعارف کرایاگیا ہے جس میں ایک صاف، صحتمند اور پائیدار ماحول کو ہر شہری کا حق قرار دیا گیا ہے تاکہ وفاق اور صوبائی حکومتیں اس کے لیے اقدامات اٹھا سکیں۔26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے وفاقی وزیرنے تفصیلاًبتایا کہ اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری اور چیف جسٹس کی تقرری ہائی کورٹ کے طرز پر3سینئر ججوں میں سے کرنے کی ترمیم لائی گئی ہے، یہ تقرری 12رکنی پارلیمانی کمیٹی کرے گی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ کی معیاد 3سال ہو گی۔انہوں نے کہاکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کی طر ف سے سینیٹ میں اسلامی نظریاتی کونسل،ربا کے خاتمے اور وفاقی شرعی عدالت کے حوالے سے ترامیم لائی گئیں جنہیں اتحادی جماعتوں نے سپورٹ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ سود کے خاتمے کے حوالے سے وفاقی شرعی عدالت کا بھی فیصلہ آیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ آرٹیکل48اور 81 میں بھی ترمیم کی گئی ہے، آرٹیکل 81 میں ترمیم سے ججوں کے احتساب کو بھی یقینی بنایا جاسکے گا۔ انہوں نے بتایا کہ آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کے تحت جوڈیشل کمیشن کی نئی شکل سامنے لائی گئی ہے۔اسلام آباد میں بار کونسل کو بھی ہائیکورٹ کے لیے نمائندگی دی گئی ہے، یہ جوڈیشل کمیشن آئینی بنچوں کا تقرر بھی کرے گا۔وفاقی وزیر نے اراکین کوبتایا کہ اعلیٰ عدلیہ میں کئی جج اپنی طبیعت کے مطابق کام کرتے ہیں اب ان کی کارکردگی کی جانچ بھی کی جاسکے گی تاکہ جو کام نہیں کر سکتا وہ گھر جائے۔ ہائیکورٹ کے جج کے لیے عمر کی حد 45 سال سے کم کر کے 40سال کی گئی ہے۔اس کے علاوہ آرٹیکل 186میں بھی ترامیم کی گئی ہیں۔ انہوں نے اتحادی جماعتوں اور مولانا فضل الرحمن کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے ان ترامیم میں ساتھ دیا۔قارئین کرام!ترقی یافتہ ممالک میں وقت کے مطابق جدید قانون لائے جاتے ہیں اور ترامیم کے ذریعے آسان اور عوام الناس کیلئے کام کیاجاتا ہے لیکن پاکستان میں 26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے جتنا شور،سازشیں ایک سیاسی بونوں کی جماعت اور چند شرپسند عناصر نے کیاشاید ہی کہیں اور بھی اتنا واویلا ہوتا ہولیکن اس حوالے سے وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان محمد شہبازشریف ،چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹوزرداری سمیت تمام سیاسی قائدین نے اہم کرداراداکیا اِس حوالے سے کافی دِن سوچ وبچار کے بعد قائد جمعیت علمائے اسلام (ف)مولانا فضل الرحمان نے بھی آخرجمہوری روایات اور جمہور ی حکومت کا بھرپور ساتھ دیا جس کی بدولت وطن عزیز پاکستان میں26ویں آئینی ترمیم یقینی ہوئی۔اس حوالے سے وزیر اعظم محمد شہبازشریف نے باقی تمام سیاسی جماعتوں کوبھی اعتماد میں لیاسوائے ایک جماعت کے جنہوں نے ہمیشہ کی طرح ملکی اہم معاملے پر بھی اکٹھابیٹھنے کے بجائے بائیکاٹ کیا۔26ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے نہ صرف پاکستان کے عوام، ریاست پاکستان بلکہ جمہوریت کی فتح ہوئی ہے۔آئینی ترمیم سے آئینی و قانونی معاملات کو مزید استحکام ملے گا۔بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے قیام پاکستان کے بعدآئینی عدالت کی سوچ کی بنیاد رکھی تھی جسے 26ویں آئینی ترمیم کی صورت میں آج قیام بھی مل گیا ہے۔آئینی ترمیم سے نہ صرف عوام کو انصاف کی فراہمی میں رکاوٹیں دور ہوں گی بلکہ ملک میں قانون کی حکمرانی اور بالادستی کو تسلیم کیا جائے گا اور عدلیہ میں تقرریوں ، ججز کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے عمل میں شفافیت اور پارلیمان بالادست ادارے کے طور پر اپنا کام کر سکے گا۔26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان محمد شہباز شریف، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، اراکین وفاقی کابینہ ، سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل رحمان ، اتحادی جماعتوں سمیت منتخب نمائندوں نے آئینی بالادستی بنانے کیلئے مثبت کردار ادا کیاجسے تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھاجائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے