یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ بلوچستان میں حالیہ برسوں کے دوران جس انداز سے ریاست مخالف پروپیگنڈا کو سیاسی و سماجی لبادہ پہنا کر پیش کیا جا رہا ہے، وہ نہایت خطرناک اور گمراہ کن رجحان بن گیا ہے۔یاد رہے کہ اس رجحان کی سب سے نمایاں مثال ”بلوچ یکجہتی کمیٹی” ہے، جو بظاہر ایک سیاسی و سماجی تنظیم کے طور پر خود کو متعارف کرواتی ہے، مگر درحقیقت یہ دہشت گرد تنظیموں جیسے بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ کی سیاسی فرنٹ لائن اور پراپیگنڈا ونگ کے طور پر کام کر رہی ہے۔مبصرین کے مطابق یہ تنظیم نہ صرف دہشت گرد عناصر کی پشت پناہی کر رہی ہے بلکہ ان کے جرائم کو جواز فراہم کرتے ہوئے پاک ریاستی اداروں پر جھوٹے الزامات کی بوچھاڑ کرتی ہے۔تفصیل اس سارے معاملے کی کچھ یوں ہے کہ پنجگور، کیچ اور دیگر علاقوں میں ہونے والی پرتشدد کارروائیوں میں عام شہریوں کو ”ریاستی ڈیتھ اسکواڈ” قرار دے کر نشانہ بنایا گیا، جن میں سے کئی بے گناہ افراد شہید ہوئے۔ مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ BYC نے کبھی بھی BLA یا BLF کے ان سفاک حملوں کی مذمت نہیں کی، بلکہ ہر موقع پر سارا الزام وطن عزیز کے ریاستی اداروں پر ڈال کر ہمیشہ دہشت گردوں کو بچانے کی کوشش کی۔اس بھیانک صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ رویہ نہ تو کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے اور نہ ہی معلومات کی کمی کا، بلکہ ایک منظم، مربوط اور خطرناک پروپیگنڈا مہم ہے جس کا مقصد ریاست پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنا اور دہشت گرد تنظیموں کے بیانیے کو سیاسی جواز فراہم کرنا ہے۔یہ امر اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی جیسی تنظیمیں درحقیقت بیرونی ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں اور خاص طور پر بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” کی جانب سے ان عناصر کو مالی، اخلاقی اور ابلاغی معاونت فراہم کی جا رہی ہے تاکہ پاکستان کے اندر شورش کو فروغ دیا جا سکے۔اس ضمن میں بھارتی حکمتِ عملی اب کھلی جارحیت سے پیچھے ہٹ کر پراکسی وار کی طرف مڑ چکی ہے، جس کا مرکز بلوچستان ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ 10 مئی کو پاکستان کے ہاتھوں بھارتی اسٹریٹیجک ناکامی کے بعد ان خفیہ عناصر کو نئی ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ بلوچستان میں ریاست مخالف تحریکوں کو مزید ہوا دیں، اور عوام کو ریاست کے خلاف اکسانے کےلئے جھوٹے بیانیے گھڑیں۔ اس مکروہ مقصد کی تکمیل کی خاطر بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اسی ایجنڈے کو اپناتے ہوئے کیچ ضلع میں مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا، اور پرتشدد حملوں کے باوجود ریاستی اداروں پر الزام تراشی جاری رکھی۔اس حوالے سے کی حالیہ مہم کا سب سے مضحکہ خیز اور شرمناک پہلو وہ من گھڑت واقعہ ہے جسے ”روکیا بلوچ” کیس کا نام دیا گیاکیوں کہ اس واقعے کی نہ کوئی رپورٹ ہے، نہ کوئی عینی شاہد، اور نہ ہی کوئی ثبوت مگر اس کے باوجودنے سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر اس جھوٹے واقعے کو بنیاد بنا کر پاک سیکیورٹی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مہم شروع کر دی۔اس مہم کا مقصد واضح تھا: لوگوں کی توجہ اصل دہشت گردوں کے جرائم سے ہٹا کر ریاستی اداروں کو ہدفِ تنقید بنانا، اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے جھوٹے الزامات میں پھنسانا لیکن عوام اور خاص طور پر بلوچستان کے باشعور طبقات نے اس پراپیگنڈے کو مسترد کر دیا۔سنجیدہ حلقوں کے مطابق اور اس جیسے دیگر گروہ انسانی حقوق، جبری گمشدگی، اور آزادی اظہار کے نعرے لگا کر بین الاقوامی رائے عامہ کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تنظیمیں انہی دہشت گرد گروہوں کے بیانیے کو آگے بڑھاتی ہیں جو معصوم شہریوں کو قتل کرتے ہیں، تعلیمی اداروں کو جلاتے ہیں اور ترقیاتی منصوبوں کو سبوتاژ کرتے ہیں۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ اگر واقعی انسانی حقوق کےلئے کام کرتی ہے تو انہیں سب سے پہلے ان دہشت گرد گروہوں کی مذمت کرنی چاہیے جو خود بلوچ نوجوانوں کو ورغلا کر انہیں ہتھیار تھماتے ہیں، اور ان کے مستقبل کو تباہ کرتے ہیں مگر ایسا کبھی نہیں ہوا، کیونکہ کا اصل چہرہ ”سیاسی” نہیں بلکہ ”دہشت گردوں کا سہولت کار” ہے۔کسے معلوم نہےں کہ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہے جس نے ہمیشہ مذاکرات، ترقی، اور مفاہمت کی بات کی ہے اور بلوچستان میں وسیع ترقیاتی منصوبے، تعلیمی اسکالرشپس، اور نوجوانوں کےلئے روزگار کے مواقع اسی پالیسی کا حصہ ہیں۔ مگر دہشت گردی کی راہ پر گامزن عناصر اور ان کے سیاسی چہرے جیسے اس عمل کو سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔یاد رہے کہ ریاستی ادارے نہ صرف بلوچستان میں امن کے قیام کےلئے قربانیاں دے رہے ہیں بلکہ وہ ان عناصر کی شناخت اور ان کے نیٹ ورکس کو بے نقاب کرنے میں بھی مصروفِ عمل ہیں۔یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قومی سلامتی پر سمجھوتہ ممکن نہیں، اور نہ ہی کسی کو اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ غیر ملکی ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کو چیلنج کرے ۔مبصرین کے مطابق بلوچ یکجہتی کمیٹی ایک خطرناک پراکسی کے طور پر سامنے آ چکی ہے، جو نہ صرف سیکیورٹی چیلنج ہے بلکہ نظریاتی محاذ پر بھی ریاست کے خلاف ایک زہر آلود مہم کا حصہ ہے۔سنجیدہ حلقوں کے بقول اس مکروہ مہم کا بھرپور جواب صرف سیکیورٹی کے ذریعے نہیں بلکہ فکری اور معلوماتی محاذ پر بھی دینا ہو گا ۔ امید کی جانی چاہےے کہ ریاست، میڈیا، سول سوسائٹی اور عوام یک زبان ہو کر ان جھوٹے بیانیوں کو مسترد کریں گے اور ان تمام عناصر کو بے نقاب کریں گے جو انسانی حقوق کی آڑ میں دہشت گردی کو جواز فراہم کر رہے ہیںکیوں کہ بلوچستان پاکستان کا دل ہے، اور اس کے امن، ترقی اور یکجہتی کو ہر قیمت پر یقینی بنانا ہم سب کی قومی ذمہ داری ہے۔