بھارت میں مسلمانوں پر سر عام تشدد ایک معمول بن گیا ہے اور ’اس کو اب برا بھی نہیں سمجھا جاتا۔مسلمانوں پر ہندو بلوائیوں کی طرف سے بلا اشتعال حملے بھارت میں ’معمول‘ بن گئے ہیں اور حکومت کی طرف سے ان کی کوئی مذمت نہیں کی جاتی۔کچھ عرصہ قبل ایک اندوہناک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک خوفزدہ مسلمان بچی اپنے باپ سے چمٹی ہوئی تھی جن کو ہندو انتہا پسند گھیر کر ان پر تشدد کر رہے تھے۔اس انتہائی تکلیف دہ منظر میں دیکھا جا سکتا تھا کہ ایک 45 سالہ رکشہ ڈرائیور کو بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش کے شہر کانپور میں گلیوں میں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور ان کی چھوٹی سی بچی انتہا پسند ہندوو¿ں سے اپنے باپ کو بچانے کےلئے داد فریاد کر رہی تھی۔ہندو انتہا پسند رکشہ ڈرائیور کو ہندوستان زندہ باد، جے شری رام اور جے رام کے نعرے لگانے پر مجبور کر رہے تھے۔ جے رام جو ہندوو¿ں میں خیر سگالی کے الفاظ سمجھے جاتے تھے انھیں ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کو قتل کرنے کےلئے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔رکشہ ڈرائیور کے یہ نعرے لگانے کے باوجود انتہا پسند ہندوو¿ں کا ہجوم انھیں تشدد کا نشانہ بناتا رہا۔ اس رکشہ ڈرائیور اور اس کی معصوم بچی کو آخر کار پولیس نے بچایا۔ تین افراد کو اس واقع میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور پھر اگلے ہی روز ان کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔اس کے چند روز بعد ہی مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں ایک چوڑیاں فروخت کرنےوالے مسلمان کی ویڈیو سامنے آ گئی جس کو ہندوو¿ں کا ایک ہجوم مکے، گھونسے اور لاتیں مار رہا تھا۔حملہ آور تسلیم علی نامی اس شخص کو دہمکیاں دے رہے تھے کہ وہ ہندوو¿ں کی آبادیوں سے دور رہے۔پولیس میں درج کرائی گئی اپنی درخواست میں تسلیم علی نے کہا کہ ہندوو¿ں کے علاقے میں چوڑیاں فروخت کرنے پر ان کو پانچ چھ افراد نے تشدد کا نشانہ بنایا، مذہبی منافرت سے بھر پور گالیاں دیں، ان کا فون، پیسے اور ذاتی شناختی دستاویز چھین لیں۔لیکن حیران کن طور پر تسلیم علی کو اگلے دن گرفتار کر لیا گیا جب ان پر حملہ آوروں میں شامل ایک شخص کی تیرہ سالہ بچی نے تسلیم علی پر ان سے زیادتی کرنے کا الزام لگایا۔تین سال سے مسلمانوں پر ہونے والے حملوں کے دستاویزی ثبوت جمع کرنےوالے آزاد صحافی علی شان جعفری کا کہنا ہے ’تشدد کی انتہا کر دی گئی ہے، یہ ہر جگہ کیا جاتا ہے اور بہت عام ہو گیا اور سب سے بڑھ کر اس کو اب برا بھی نہیں سمجھا جاتا۔‘ انھیں ہر روز تین سے چار ایسی ویڈیو موصول ہوتی ہیں لیکن وہ صرف ایک یا دو ہی کی تصدیق کر پاتے ہیں اور پھر وہ اس کو سوشل میڈیا پر جاری کر دیتے ہیں۔بھارتی معاشرے میں مذہبی تقسیم کی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن جب سے انتہا پسند ہندو جماعت سے تعلق رکھنے والے نریندر مودی حکومت میں آئے ہیں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد مزید بہت بڑھ گیا ہے۔دہلی یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر تنویر اعجاز کا کہنا ہے ’مذہبی تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن یہ اقتدار میں آنے والوں کی حکمت عملی اور سیاسی ہتھکنڈوں کے ساتھ بڑھتا ہے۔‘ مذہبی تقسیم بڑھی ہے اور یہ ابھی مذہبی اور نسل پرستانہ قومیت کے جذبے سے اور زیادہ شدید ہو گئی ہے۔نریندر مودی کے پہلے دورے اقتدار میں مسلمانوں پر گاو¿ رکشکوں (گائے کی حفاظت کرنےوالے) کی طرف سے گائے کا گوشت کھانے کی افواہوں پر یا گائے سمگل کرنے کے الزامات پر بہت سے حملے ہوئے تھے ۔ نریندر مودی نے ان حملوں پر مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی ہے۔ حکومت اس طرح لوگوں کو قتل کرنے کو برا سمجھتی ہے لیکن قانون کا نفاذ ریاستوں کی ذمہ داری ہے۔حکومت کی نظر میں لنچنگ بری چیز ہے، چاہے جہاں بھی ہو۔ لیکن امن و امان ریاستوں کی ذمہ داری ہے اور انھیں ہی اس سے نمٹنا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق لنچ ہونے والے دو سو افراد میں سے 160 ہندو تھے۔ ’تمام مذاہب کے لوگ نشانہ بنتے ہیں۔ 2019 میں فیکٹ چیک کرنےوالی ویب سائیٹ نے بھارت میں نفرت پر مبنی جرائم کے بارے میں بتایا تھا کہ گزشتہ دس برسوں میں ایسے جرائم کا نشانہ بننے والے 90 فیصد افراد مسلمان تھے۔ اور ایک وزیر کی طرف سے ایک مسلمان کو مارنے کے مجرم ٹھہرائے جانے والے آٹھ ہندوو¿ں کو ہار پہنائے جانے جیسے واقعات کے بعد الزامات لگتے ہیں کہ حملہ آور بی جے پی کی سپورٹ کی وجہ سے سزا سے بچ جاتے ہیں۔ناقدین کا کہنا ہے کہ 2019 میں نریندر مودی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلمان مخالف تشدد میں اضافہ ہوا تھا جو 2024 میں بہت زیادہ ہوگیا۔کئی بار تشدد صرف جسمانی نھیں ہوتا بلکہ یہ اقلیتی برادری کو انتہائی برا پیش کرنے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ مثلاً جب بھارت میں کووڈ پھیل رہا تھا تو مودی حکومت کے وزرا اور پارٹی کے ارکان سمیت ہندو رہنماو¿ں نے دلی میں ایک مذہبی اجتماع میں شریک ہونے والے مسلمانوں پر ’کورونا جہاد‘ کا الزام لگایا تھا۔اس کے بعد ’روٹی جہاد‘ کے بارے میں سننے کو ملا جس میں اس طرح کے الزام لگائے گئے کہ مسلمان باورچی روٹیوں پر تھوک رہے ہیں تاکہ ہندوو¿ں میں کورونا پھیل جائے۔حالیہ مہینوں میں کئی ریاستوں میں ’لو جہاد‘ کے خلاف قانون سازی کی گئی ہے۔ بہت سے ہندو گروہ مسلمان مردوں پر ہندوو¿ں کی عورتوں کو ورغلا کر شادی کرنے کا الزام لگاتے ہیں تاکہ انھیں مسلمان کر لیا جائے ۔ بھارتی ریاست بہار میںہندوتوا غنڈوں نے ضلع سمستی پور کے علاقے مورواڈا میں صابراتی ندف نامی مسلمان کو پیٹ پیٹ کو قتل کر دیا۔ غنڈوں نے مقتول کے بیٹے پر ایک دکان سے سگریٹ چوری کرنے کا الزام لگایا تھا۔ مقتول کی بہو گلنازہ خاتون نے بھائی کی موت کا ذمہ دار پھول مکھیا، راجا رام مکھیا، رگھوویر مکھیا، میرا دیوی، وینا دیوی، منیشاد دیوی، کویتا دیوی اور مالو دیوی کو ٹھہرایا ہے۔ پولیس نے گلنازہ کی شکایت پر مذکورہ افراد کے خلاف ایف آئی آر درج توکر لی ہے مگر اس کا فائدہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔