کالم

ربا کدی نہ پین وچھوڑے

چند دن پہلے میں اپنے ایک عزیز دوست کے گھر ان کی اہلیہ کی وفات پر فاتحہ خوانی کےلئے گیاگھر کی بیل بجائی توکچھ لمحوں کے بعد میرے دوست دروازے پہ نمودار ہوئےآنکھیں رونے کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھیں اور کچھ ان پر سوزش بھی تھی مجھے لیکر ڈرائنگ روم میں داخل ہونے لگے تو انکے موبائل پر نصرت فتح علی خان کی قوالی لگی ہوئی تھی جسکے بول تھے ربا کدی نہ پین وچھوڑے سن لے دعاواں میریاں ، میرے دوست کی آنکھوں سے آنسو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے میںنے ان کا موبائل فون آف کر دیا تو چند لمحوں بعد وہ اس کیفیت سے نکلے اور لمبی سانسیں لیتے ہوئے کہنے لگے یار یہ موت بھی عجیب بلاوا ہے جب چاہے جیسے چاہے خاموشی سےبندے کی روح لے جاتی ہے بندہ وہی ہوتا ہے لیکن حقیقا وہ نہیں ہوتا آنکھیں بند نہ کسی بات کا جواب ملتا ہے نہ ہی سانسوں کی آمدورفت بس جسم ساکن ہو کر رہ جاتا ہے پھر وہ ایک مردہ جسم منوں مٹی تلے چھپا دیا جاتا ہے مٹی مٹی کے ساتھ مل جاتی ہے تھوڑے عرصے بعد کوئی یاد کرنے والا بھی نہیں ہوتا یہ سلسلہ ازل سے ابد تک جاری رہے گاہمارے چونکہ برسوں پر محیط تعلقات ہیں اس لیے مجھے مرحومہ کی زندگی کی کافی معلومات ہونے کی وجہ سے افسوس کے ساتھ یہ خیال بھی زہن میں ابھر رہا تھا کہ جب مرحومہ زندہ تھی تو میاں بیوی کے درمیان بنتی نہیں تھی بات بات پر جھگڑا کوئی دن ایسا نہیں ہوتا تھا جب دونوںمیں لڑائی نہ ہوتی ہو خوشگوار موڈ شاید غلطی سے بن پاتا ہوگا مجھے صحیح طور پر یاد نہیں میں نے کبھی ان دونوں کو ہنستے دیکھا ہو ماشااللہ دو بیٹے اور ایک بیٹی بھی ان کی وراثت میں تھے دونوں بیٹے اعلی تعلیم یافتہ اور اچھے عہدوں پر فائز تھے اس طرح بیٹی بھی اپنے گھر میں خوشحال کامیا ب تھی ۔ اللہ نے سبھی نعمتوں سے نوازرکھا تھا لیکن سکون کی دولت سے دامن خالی تھا مرحومہ ناراض ہو کر کئی کئی ما ہ کےلئے والدین کے گھر چلی جایا کرتی تھیں جب واپس آتیں تو چند دن بعدپھر زندگی کے مایوس ڈرامے کی اگلی قسط چل پڑتی موت نے دونوں میاں بیوی میںوچھوڑا ڈال دیا خاوند کو روتا دیکھتے ہوئے میں نے کہا شادی شدہ زندگی کی تلخ یادوں کے علاوہ تمہارے پاس اور کیا ہےاب یادوں کے دیے روشن کرکے آنسو بہانے سے کیا فائدہ شادی کے بندھن میں پچاس سال گزارے لیکن تم لوگوں نے اس وقت کو اچھے انداز سے گزارنے کے بجائے خانہ جنگی میں گزارے اب روتے ہوئے یوں لگتا ہے تم کسی ڈرامے میں بیوی کی موت کا منظر ایکٹنگ کے ذریعے ریکارڈ کرانے کی ریہرسل کر رہے ہو ۔ کہا جاتا ہے کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں اللہ زمین پر انہیںاکٹھا کر دیتا ہے جب یہ کام اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے تو گھریلو ماحول کو خوشگوار کیوں نہیں بنایا جاتا لڑائی جھگڑے فساد کی وجہ سے گھریلو زندگی عذاب بنا کر رکھنا کہاں کی عقلمندی ہے کھچاو تناو کا ماحول بنا کر بچوں کو نفسیاتی مریض بنا دینا کہاں کا انصاف ہے خاوند روزی کمانے کےلئے گھر سے باہر رہے تو بیوی کےلئے وہ عرصہ ذہنی اور قلبی سکون اور جیسے ہی دونوں اکٹھے ہوں تو پنجابی فلموں کے مار دھاڑ مناظر وقوع پزیر ہونے لگتے ہیں یہ کسی ایک طبقے کی بات نہیں تعلیم یافتہ اور باوقار گھرانے بھی کسی سے کم نہیں ان کے ہاں بھی تہذیب کے دائرے میں رہ کر یا دائرے سے باہر رہ کر بہت کچھ ہوتا ہے اختلافات اگرچہ زندگی کا حصہ ہیں ہر خوشی کے باطن میں غم چھپا ہوتا ہے اور مایوسی کی فضاوں میں امید کا پہلو جھانک رہا ہوتا ہے وقت ایک جیسا نہیں رہتا خوش نصیبی کی تلاش میں سرگرداں یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ خوش نصیبی ایک متوازن زندگی کا نام ہے نہ زندگی سے فرار ہو اور نہ بندگی سے فرار لیکن ہم تو سوچنے کے عادی نہیں جذباتیت کے شکنجے میں جکڑے ہوئے معقولیت سے دور خود نمائی کے سحر میں گرفتار۔ یہ بات ذہن کے خزینے میں رکھنے والی ہے کہ خوشیاں اورغم دینے والے ہی ایک دوسرے کو غم اور خوشیاں دیتے ہیں یہ قلیل عرصہ پلک جھپکتے گزر جاتا ہے احساس اسوقت ہوتا ہے جب زندگی کے ساتھی میں ایک باقی رہ جائے صبر اور برداشت کا مادہ بالکل ختم ہو چکا اپنے مفادات کےلئے بیٹا ماں باپ کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے بیوی شوہر کو اورشوہر بیوی کو شدت جذبات سے مغلوب ہو کر ہمیشہ کےلئے ختم کردیتا ہے خون خرابے کی خبریں تو روزانہ اخبارات کی زینت بنتی ہیں مقابلہ انسانوں میں نفرت کا بیج بوتا ہے اس کا حاصل تباہی اور بربادی ہوتا ہے کئی گھرانے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر بربادیوں کے ویرانوں میں گم ہو گئے۔ ایسے حالات بچوں کی تعلیم اور تربیت پر گہرا اثر ڈالتے ہیںانہیں ماں کا پیار اور باپ کی شفقت، سرپرستی درکار ہوتی ہے کسی ایک رشتے کے نہ ہونے سے ان کی شخصیت بکھرکر رہ جاتی وہ معاشرے کا ایک کار آمد فرد بننے کے بجائے انتقامی جذبوں سے پروان چڑھتے ہیں ان باتوں کا احساس شاید والدین بروقت نہیں کر پاتے بعد میں پچھتاوے لا حاصل ہوتے ہیں۔(……..جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے