بین الاقوامی قومی سیرت کانفرنس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ اسوہ حسنہﷺ کے ان پہلووں کو نمایاں کیا جائے جن پر عمل کرکے نہ صرف ہم اچھے مسلمان بن سکتے ہیں بلکہ مثالی پاکستانی ہونے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر کرنے میں مدد مل سکتی ہے ،سیرت النبیﷺ کا نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں کامیابی سے ہمکنار ہونے والی ان تمام اقوام کے سنہری اصولوں کی جھلک دکھائی دیتی ہے جو کسی قوم کے عروج و زوال میں میں کلیدی کردار کرسکتے ہیں، بین الاقوامی قومی سیرت کانفرنس کے انعقاد کا پس منظر یہی ہے کہ قوم کو باور کروایا جائے کہ چونکہ اسلام دین فطرت ہے تو بطور مسلمان ہمیں اس پر یقین ہونا چاہے کہ ہم جس دین کے ماننے والے ہیں وہ زندگی کے ان بہترین اصولوں کی جانب رہنمائی کرتا ہے جو دنیا میں امن ، سکون اور ترقی کے فروغ میں مسلمہ اہمیت کے حامل ہیں ، پاکستان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ یہ اسلام کے نام پر بننا،ہونا تو یہ چاہے تھا کہ دین کے وہ آفاقی اصول جن کی سچائی کو اقوام عالم کا ہر باضمیر شخص تسلیم کرتا ہے پر دل وجان سے عملا کیا جاتا مگر باجوہ ایسا نہ ہوسکا، مثلا جدید دنیا میں جھوٹ بدترین فعل کے زمرے میں آتا ہے ہمارا دین اس گناہ کبیرا قرار دیتا ہے مگر ہمارے معاشرے میں کم وبیش ہر شعبہ میں جھوٹ کی موجودگی کا آسانی سے پتہ چلایا جاسکتا ہے ، اسی طرح امانت میں خیانت ، رحم دلی ، ہمسائیوں سے اچھا سلوک کرنا، بزرگوں کا احترام ، عورتوں کے حقوق کا خیال رکھنا، بچوں سے شفقت ، انصاف کی سربلندی ، غریب اور مستحق افراد کی کفالت ، قرض داروں کے لیے سہولت ، غرض مغربی ممالک کے وہ اصول جن پر وہ آج فخر کرتے ہیں اسوہ حسنہ ﷺ میں چودہ سو سال پہلے بتا دئیے گے ، اس پس منظر میں لازم ہے کہ ہم ربیع الاول کے مہینے میں خود احتسابی پر توجہ مرکوز رکھیں ، اپنی مصروف زندگیوں میں سے چند لمحے نکال کر سوچیں کہ تیزی سے ختم ہونے والی زندگی میں کیوں اور کیسے اتباع رسول ﷺ کا عملی نمونہ بنا جاسکتا ہے، اہل فکر ونظر کا یہ کہنا غلط نہیں کہ آج ہمیں اپنی ترجیحات درست کرنے کی ضرورت ہے ،اسلام کے سنہری اصولوں کو اپنی منشا کے مطابق ڈھالنے کی ناکام کوشش کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ دل وجان سے ان پر عمل کرنے کی سعی کی جائے ، خوب کہا گیا کہ کسی انسان کے پاس یا تو کامیابی ہوا کرتی ہے یا پھر بہانے ، مملکت خداداد نعمتوں سے مالا مال ہے، نعمتوں سے مستفید ہونے کے لیے لازم ہے کہ بطور مسلمان ہم اپنی خامیوں اور خوبیوں کا جائزہ لیں ، عصر حاضر کی فلاحی ریاست اور حقیقی اسلامی ریاست میں کسی طور پر کوئی بڑا فرق نہیں ، مثلا اگر مغرب کی فلاحی ریاست میں شہریوں کی جان ومال کو مقدم تصور کیا جاتا ہے تو اسلام میں انسانی جان کی حرمت بارے یوں وضاحت کی گی کہ جس نے ایک بے گناہ کو قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کردیا، مذید کہا کہ جس کسی نے ایک انسان کی جان بچائی تو گویا اس نے پوری انسانیت کی جان کو بچا لیا ، ہمیں بطور مسلمان سوچنا ہوگا کہ آئے روز درجنوں افراد ٹریفک حادثات میں اپنی زندگیوں سے محروم ہوجاتے ہیں تو یہ سلسلہ کیونکر نہیں تھم رہا، ہم اسوہ حسنہ کی روشنی میں ملک میں رائج انصاف کے نظام کا جائزہ لیں تو کیا دل پرہاتھ رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ہم اپنے کمزور طبقات کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے میں کامیاب ہیں ، بلاشبہ نظام انصاف میں ہزاروں نہیں لاکھوں مقدمات زیرالتوا ہیں ، صورت حال کی سنگینی کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ نسل درنسل بھی مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوتا، وقت آگیا ہے کہ ہم تمام مسائل کی زمہ داری حکومت پر عائد کرنے کی بجائے اپنے اپنے گربیانیوں میں جھانکیں ، وزیر اعظم شہبازشریف کی ان تمام پالیسوں کا کامیاب بنانا ہوگا جو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر عوامی وبہبود سے متعلق ہے ، ہم میں سے کسی کو نہیں بھولنا چاہے کہ اسلام عبادات اور معاملات پر مشتمل ہے ،وقت آگیا ہے کہ ہمارا مذہبی طبقہ بھی عوام کو حقیقی معنوں میں دینی تعلیمات پر اس انداز میں عمل کرنے پر آمادہ کرے، اہل علم جمہوریت کو اسلام کے قریب اس لیے قرار دیتے ہیں کہ کہا گیا کہ مسلمانوں کے باہمی معاملات مشورے سے طے ہوتے ہیں، اس حکم کی روشنی میں جمہوری نظام مشاورت میں بہترین معاون کا کردار نبھا سکتا ہے ، مذکورہ سنہری اصول کی روشن میں دیکھنا ہوگا کہ آج ہم اخلاقی طور پر کہاں کھڑے ہیں، پوچھا جاسکتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ میں اور آپ اپنی ناکامیوں کی زمہ داری محض حکومت پر عائد کرکے خود کو معصوم ثابت کرنے کی لاحاصل مشق میں مصروف ہیں، یقینا اس پس منظر میں ماہ ربیع الاول کا مہینہ میں ہمیں خود احتسابی کی دعوت دیتا ہے ، بین الاقوامی سیرت کانفرنس میں بھی عام وخواص دونوں کو اپنی باطن میں جھانکنے کی تلقین کی جاتی ہے ، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دین اسلام کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ہر فرد کو خدا کے حضور پیش ہوکر اپنے اعمال کا حساب دینے کی مسلسل یاد دہانی کرواتا رہتا ہے۔