بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کےخلاف طلبہ کے احتجاج کے نتیجے میں آرمی کی مداخلت اور سہولت کاری کے ذریعے بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد کے انخلا کے بعد پاکستان میں بغیر کسی ٹھوس ،مائع یا گیس وجہ کے خوشی کی لہریں گردش کرنے لگیں تھیں۔ ویسے بھی تیزی سے ترقی کرتے بنگلہ دیش کے نظم حکومت میں کسی بھی بہانے آرمی چیف کی مداخلت نے پاکستان میں بہت سے لوگوں کو شاد باد کیا ہو گا کیونکہ پاک سرزمین کو شاد باد کہنا، سمجھنا پاکستانیوں کے لیے فرض اور شاد باد دیکھنا ایک خواہش کی طرح رہا ہے اور ہے بھی۔ بنگلہ دیش میں طلبہ کے احتجاج اور اس کے نتائج میں آنے والی تبدیلیوں کے اندرونی اور بیرونی عوامل کا صحیح اور حقیقت پسندانہ تجزیہ ابھی باقی ہے۔ ابھی یہ کہنا اور سمجھنا بھی درست معلوم نہیں ہوتا کہ بنگلہ دیش میں شیخ مجیب اور ان کی سیاسی جماعت کی جڑیں خشک اور اثرات ختم ہو چکے ہیں۔یا یہ کہ اب پھر سے بنگلہ دیش میں الشمس اور البدر کی روح بیدار ہو کر توانائی حاصل کرتی جا رہی ہے ۔یہ خواہشات سے وابستہ مفروضوں کے سوا کچھ اور نہیں۔مناسب اور موزوں بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں آنےوالی سیاسی تبدیلیوں کے اپنی صورت اور سیرت واضح کرنے کا انتظار کیا جائے ۔ہاں یہ بات درست ہے کہ ان تبدیلیوں سے پاکستان اور حسینہ واجد کے زیر قیادت بنگلہ دیش کا تناو¿ اور دوری ختم ہو سکے گی۔تجارتی روابط بحال اور موثر ہو سکنے کے امکانات بھی ہیں۔بس ایک شرط ہے کہ ہم پاکستانی ذہن سے بنگلہ دیشی فراست کا اندازہ قائم کرنے کی کوشش اب نہ کریں ۔ بنگلہ دیشی ذہن کہیں زیادہ سیاسی شعور رکھتا ہے ۔ اور یہ بھی کہ؛ شیخ مجیب الرحمن کی شخصیت اور سیاسی اثرات کو نظر انداز کر کے بنگلہ دیش کے ذہن کو سمجھنا نادانی کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا۔حال ہی میں پاکستانی سیکریٹری خارجہ کے دورہ بنگلہ دیش کا چرچا رہا۔اس دورے میں آمنہ بلوچ نے بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزرپروفیسر محمد یونس اور مشیر خارجہ محمد توحید حسین سے بھی ملاقاتیں کیں۔ اس دورے کے دوران پاکستانی سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ نے بنگلہ دیش کے سیکرٹری خارجہ جسیم الدین سے ملاقات کی اور اس ملاقات میں پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق بعض غیر حل شدہ معاملات پر بات چیت کی گئی اور دونوں فریقین نے احترام کے ساتھ اپنے موقف پیش کیے۔یہ غیر حل شدہ معاملات کیا تھے کہ جن پر دونوں فریقین نے احترام کےساتھ اپنے اپنے موقف پیش کئے؟ بنگلہ دیش کے سیکریٹری خارجہ جسیم الدین نے آمنہ بلوچ کے ساتھ ملاقات کرنے کے بعد ایک پریس کانفرنس میں ان غیر حل شدہ معاملات پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا تھا کہ؛اول: بنگلہ دیش نے پاکستان سے 1971 میں علیحدہ ہونے کے بعد واجبات کی مد میں 4.32 ارب ڈالر کی ادائیگی کا مطالبہ کیا ہے۔ دوم : بنگلہ دیش نے پاکستان سے 1971 کی جنگ کے مبینہ مظالم پر باضابطہ معافی مانگنے کا مطالبہ بھی دھرایا ہے ۔ سوئم : بنگلہ دیش نے پاکستان سے بنگلہ دیش میں پھنسے پاکستانیوں (یعنی بہاریوں)کو پاکستان منتقل کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ ان کے مطابق بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں میں سے کچھ تو بنگلہ دیش میں ہی قیام کرنا چاہتے ہیں لیکن ایک اچھی خاصی تعداد پاکستان لوٹنا چاہتی ہے۔جسیم الدین کے مطابق بنگلہ دیش میں اس وقت موجود بہاریوں کی مجموعی تعداد تین لاکھ 24 ہزار 447 ہے۔ اور چہارم : بنگلہ دیش نے 1970 کے طوفان کے متاثرین کےلئے بھیجی گئی غیر ملکی امداد کی منتقلی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔اپنی پریس کانفرنس میں جسیم الدین نے یہ وضاحت بھی کر دی ہے کہ؛اگر بنگلہ دیش کے پاکستان کےساتھ تعلقات کو مضبوط بنیادوں پر قائم رکھنا ہے تو اسکے لیے ان مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ اعلامیے میں ان تمام غیر حل شدہ امور یا یوں کہہ لیں کہ بنگلہ دیش کے مطالبات کا ذکر موجود نہیں ہے۔ اسکے عوض اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ؛ دونوں ممالک نے باقاعدگی سے بات چیت جاری رکھنے، زیر التوا یا زیر تجویز معاہدوں کو حتمی شکل دینے اور تجارت، زراعت، تعلیم اور باہم رابطوں میں تسلسل اور تواتر پر زور دیا گیا۔اسکے علاوہ خیر سگالی کے اظہار کےلئے پاکستان کی جانب سے اپنی زرعی یونیورسٹیوں میں بنگلہ دیشی طالب علموں کو تعلیمی مواقع فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی گئی۔جسکے جواب میں بنگلہ دیش کی طرف سے ماہی گیری اور میری ٹائم سٹڈیز کے شعبوں میں تکنیکی تربیت اور تعلیم کی پیش کش کی گئی ۔اس پس منظر میں پاکستان کے وزیر خارجہ اپریل کے اواخر میں بنگلہ دیش کا دورہ کرنے والے ہیں۔انہیں پاکستان کی طرف سے پوری تیاری کر کے اور پاکستانی موقف کی منطقی تشکیل کر کے بنگلہ دیش جانا چاہیئے۔کیا پاکستان بنگلہ دیش سے 1971 میں بھارتی مدد، عسکری تربیت اور اسلحہ جاتی اعانت کےساتھ قائم ہونے والی دہشت گرد تنظیم مکتی باہنی کی طرف سے بنگلہ دیش میں مقیم مغربی پاکستانیوں اور بہاری مسلمانوں کے بے دریغ قتل عام پر بنگلہ دیش کی طرف سے معافی مانگنے کا مطالبہ کر سکتا ہے ؟ میرے خیال میں پاکستان کو مکتی باہنی کے مظالم پر بنگلہ دیش سے معافی کا مطالبہ کرنا چاہیئے ۔ پاکستان کو بتانا چاہیئے کہ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے بیج بونے کے بعد انکی آبیاری کرنے کے لیے مکتی باہنی جیسی مسلح گوریلا تنظیم کی تشکیل بھارتی فوج کے سابق میجر جنرل اوبین نے 1969 میں ملٹری اکیڈمی ڈیرہ دون میں کی تھی اور یہ بھی کہ پاک فوج کے سابق کرنل عثمانی کو اس تنظیم کا بظاہر انچارج بنایا گیا تھا ، یہ وہی کرنل عثمانی تھے جو بنگلہ دیش بن جانے کے بعد وہاں کی مسلح افواج کے پہلے کمانڈر انچیف مقرر ہوئے تھے ۔میں نے 24فروری 2025 کو شائع ہونے والے ایک کالم ”اکیسویں صدی کے معصوم دہشت گرد“میں لکھا تھا کہ؛ انڈیا نے 1962 میں چین کے حملے کی دہائی دے کر امریکہ سے چین کے ساتھ لڑنے کےلئے جو فوجی امداد اور خصوصی عسکری تربیت حاصل کی تھی ،وہ چین کے خلاف استعمال کرنے کی بجائے 1971 میں مشرقی پاکستان میں ریاست کے خلاف مسلح بغاوت برپا کرنے کےلئے استعمال کی گئی تھی۔پاکستان کا دولخت ہونا اس زمانے میں بھی انڈیا کےلئے امریکی اعانت کا مرہون منت تھا“ بھارتی فوج کی براہ راست تربیت اور مداخلت کے ساتھ مکتی باہنی نے مشرقی پاکستان میں مقیم غیر بنگالیوں پر مظالم اور جان لیوا تشدد کا لامتناہی سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔اس دہشت گرد تنظیم نے مارچ 1971 ضلع نوگاو¿ں کے قصبے سنتہار میں 15000 بہاریوں کا قتل عام کیا تھا۔ یہ صرف ایک واقعہ ہے،ایسے متعدد واقعات تاریخ کے دردناک اندراجات میں موجود ہیں۔مکتی باہنی کے دہشت گردوں پر بہاری خواتین کی عصمت دری کرنے کے الزامات بھی ہیں۔تو کیا پاکستان کو بھارتی پشت پناہی کے ساتھ مکتی باہنی کی طرف سے کئے گئے قتل عام اور آبرو ریزیوں پر بنگلہ دیش سے معافی کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیئے۔؟ سب سے اہم بات جو دونوں ملکوں کو سوچنی اور سیکھنی چاہیئے ،وہ یہ ہے کہ دونوں ممالک ماضی کی خاردار جھاڑیوں سے اپنے اپنے دامن کس طرح سے چھڑوا سکتے ہیں، تاکہ متبادل معافیوں کی سفارتکاری کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دوطرفہ تعلقات اور دوستی کو پروان چڑھایا جا سکے۔