ہم بہت ہی باشعور قوم ہیں جو سیاسی طور پر جذبات سے لبریز رہتی ہے بلکہ کناروں سے ڈل ڈل پڑتی ہے ذرا سی بات ہو تو زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے فضا کو خوب گرما دیتے ہیں اپنی بات منوانے کے لئے دوسروں کی بات سننے کی زحمت سے گزرنے کا حوصلہ نہیں مار دھاڑ سے بھرپور سلطان راہی اور مصطفی قریشی کی فلموں کے مناظر فری میں بغیر کچھ خرچ کئے دیکھنے کو مل جاتے ہیں نظم، ضبط اور قوانین پر پابندی کرنے والوں کی تعداد وقت کے ساتھ کم سے کم ہوتی جا رہی ہے انہیں ٹچربازی کا یہ جملہ سننے کو ضرور ملتا ہے ڈر گئے او یعنی قانون کو اپنی ٹھوکر پر رکھنا بہادری اور معاشرے میں بااثر ہونے کے ساتھ نمایاں مقام کا ثبوت ہے۔ نظام تعلیم ایسا کہ تعلیمی اداروں میں کریکٹر بلڈنگ کی طرف توجہ نہیں دی جاتی صرف ڈگری ایشو ہوتی ہے اکثریتی جوان گرم خون اپنی مستی اور جوشیلے پن میں سود و زیاں کے چکر سے بے نیاز سیاسی جماعتوں کے شکنجے میں پھنس جاتا ہے جہاں ان کی تربیت صرف جلسے جلوس ہڑتالوں نعرے بازی ضد ہٹ دھری اور جماعت کے سربراہ پر جان تک چھڑک دینے کی ہوتی ہے وہ کسی موقعے ہر حوالاتوں میں مرتے سڑتے رہیں کسی کو کوئی فکر نہیں ماں باپ اپنی قلیل آمدنی اور ضروریات زندگی کو محدود سے محدود کر کے جو سرمایہ بچوں کی تعلیم پر یہ سمجھ کے خرچ کرتے ہیں تعلیم مکمل کرنے کر بعد اولاد والدین کا سہارا بنے گی وہ خود بے سہارا بن کر وقت اور حالات کو سہنے لگ جاتے ہیں ان کے جذبات بھی سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور شخصیت پرستی کی فلاسفی کے خلاف سلگنے لگتے ہیں لیڈروں کو وقت پر قربانی کے بکرے چایئں ہوتے ہیں جو انہیں آسانی سے مل جاتے ہیں نہ تو لیڈروں کا ان عوامی گھٹیا مخلوق سے کوئی تعلق ہوتا ہے اور نا ہی انہیں سستی قربانی دینے والوں کے حالات کو جاننے کی خواہش ہوتی ہے انہیں اپنے جلسوں کی زینت بننے کے لئے افرادی قوت نظر آنی چایئے جن کے جذبات کو وہ اپنی مرضی سے بھڑکا سکیں ملک کا جتنا مرضی نقصان ہو ان کی بلا سے جلسے کی کامیابی کا معیار توڑپھوڑ مارپٹائی فائرنگ اور لاشوں کی تعداد پر ہوتا ہے جنازے اولاد والوں کے اور کامیابی لیڈر کا نصیب بنتی ہے ہمارے ملک میں ہر نظام بے لگام نتیجہ ہر طرح سے ناکام۔ تعلیمی اداروں کے علاوہ دفاتر ہسپتال فلاحی اور عوامی خدمات پر مامور ادارے گھر غرض کسی بھی جانب نگاہ دوڑائیں آپ کو مایوسی آگے بڑھ کر گلے لگائے گی سیاست برباد معیشت اس سے زیادہ برباد انفرادی اور اجتماعی طور پر افراد اور معاشرہ برباد نہ کسی میں ذمہ داری اور نہ ہی احساس کہ ہم بحیثیت قوم کیوں ذمے دار کردار کے مالک نہیں یہ فضول بات سوچنے کا وقت ہمارے پاس نہیں یہی ڈنگر نما ملک کے لوگ جب ملک سے باہر جاتے ہیں تو ائرپورٹ پر اترتے ہی بندے دے پتر بن جاتے ہیں اور اس ملک کے قانون پر لاشعوری طور پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں لائن میں کھڑے ہو کر امیگریشن کے مراحل سے گزرتے ہیں اور اس کے برعکس اپنے ملک میں ایلیٹ کلاس چاہتی ہے اس کی گاڑیوں ائرپورٹ کی حدود میں بغیر کسی رکاوٹ کے جہاز کے بالکل قریب جا کر ٹھہرے وہاں انہیں پروٹوکول ملے اور جہاز میں اگلی سیٹ بیٹھنے کو ملے پائلٹ اور عملہ سفر کے دوران بھی ان کا خاص خیال رکھے ایسے لوگ جو یہ چاہتے ہیں کہ نظام ان کی ذات کے گرد گھومے وہ جب کسی عہدے ہر فائض ہو جاتے ہیں تو انہیں کیا عوامی خدمت کرنا ہے وہ سب کو اپنی خدمت پر لگائے رکھنے کی تدبیر میں لگے رہتے ہیں نہ تو اپنی ذات میں ڈسپلن اور نہ ہی اداروں میں ڈسپلن رہتا ہے مادر پدر آزاد کلاس قوانین چاہے اخلاقی ہوں یا قانونی اپنی ذات پر لاگو کرنے کو بے عزتی سمجھتی ہے ہم کیونکہ انگریزوں کی غلامی میں رہے ہیں اور جاتے وقت وہ اپنے کمیروں کو ذاتی خدمت کے عوض زمینوں کے مالکانہ حقوق دے گئے لہذا جن کی ٹریننگ ہی چاپلوسی اور قدم بوسی اور وقت کے حکمرانوں کی چار پشتوں کے قصیدے پڑھنے میں گزری ہو وہ کم ظرف دوسرے لوگوں کو بھی انہی راستوں پر چل کر آنے کے لئے مجبور کرتے رہیں گے اس طرح ان کی انا کی تسکین ہوتی ہے ان کی اولادیں بھی اسی فلسفہ حیات پر گامزن رہتے ہیں یہ نواب زادے شہاب زادے صاحب زادے اور آگے قافیہ ردیف ملاتے چلے جائیے اور دل کی بھڑاس نکال لیں لیکن وہ اپنی خود پرستی نہ چھوڑیں گے آپ چاہے جل بھن کر کباب بن جائیں ملک اسی طرح چلتا رہے گا نسل در نسل موروثی اقتدار مٹھی بھر لوگوںکے قبضے میں رہے گا ان کی نسلیں بھی باہر دولت بھی باہر انکے کاروبار بھی باہر ان کے تعلقات بھی باہر نہ مقامی طور پر عوام سے تعلق نہ ہی ملک سے وہ وقت کی لگام اپنے ہاتھ میں تھامے واقعات کے گھوڑے پر شان سے سوار ہو کر آتے ہیں اور چھا جاتے ہیں عوام تالیاں پیٹ کر اور جی آیئاں نوں کہہ کر سڑک کے دونوں کناروں دھوپ گرمی سردی طوفان بارش میں بھیگ کر ان کا استقبال کرتی ہے وہ صرف ان کی تیز رفتار گاڑی سےاڑتی ہوئی خا ک کو تکتے رہتے ہیں کچھ خاک ان کے سروں پر پڑتی ہے اور کچھ ان کی آنکھوں پر اس لئے دوران اقتدار عوامی کی آنکھیں کھلتی ہی نہیں وہ آنکھوں کو مسلتے رہتے ہیں نہ صاف نظر آتا ہے اور نہ حالات سے واقفیت ہوتی ہے وقت مفاد پرستوں کی لونڈی بن کے ان کے سامنے سرجھکائے گزرتا رہتا ہے آپ یہ خبر پڑھ کر حیران ہوئے ہوں گے کہ قومی اسمبلی کے سپیکر صاحب نے یہ سرکلر جاری کیا ہے کہ پارلیمنٹ میں سگریٹ کچرا اور تھوکنے سے گریز کیا جائے سبحان اللہ ماشا اللہ صاحب نے کیا یاد دلا دیا یہ پڑھے لکھے ایلیٹ کلاس افراد کے لئے ہدایات جاری ہوئی ہیں جن بے پرواہ لوگوں کی زندگی صفائی پسندی کے زمرے میں نہ آتی ہو تو پھر ان کے دل دماغ کی سوچ اور عمل کا کیا معیار ہوگا اس کا اندازہ آپ خود لگا لیں ان لوگوں سے عوام کی مشکلات تکالیف کا کیا حل ملے گا یہ گند پھیلانے والے نمائندے جو اپنے ادارے کو صاف ستھرا نہیں رکھ سکتے ان سے بہتری کی کیا امید کر سکتے ہیں ان سے یہ کہنا پڑا کہ صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں صفائی کرنے والے روزانہ پارلیمنٹ سے اپنا وزنی گند اٹھاتے ہونگے کہ عوامی مفاد کے بل بھی اس کے آگے کم وزنی ہوں گے وہاں تو صرف ذاتی لڑائی جھگڑے ایک فرد کی رہائی اور ذاتی مفاد کے بل پیش ہوتے ہیں جنہیں فرشتے پیش کرتے ہیں اور پاس بھی اعلیٰ کردار اور اوصاف کے فرشتے کرتے ہیں جو اللہ بھلا کرے اصل میں گند پھیلاتے ہیں۔ مجھے شک پڑتا ہے کیا ہم قوم ہیں یا بے مقصد ہجوم جو منظر دیکھنے کسی بھی جگہ جمع ہو جاتے ہیں دیگر ممالک کے کونے کونے صاف ستھرے اور چمکتے ہوئے ہوتے ہیں لوگ ٹشو پیپر بھی ڈسٹ بن میں پھینکتے ہیں کوئی بندہ سڑک پر تھوکتے ہوئے کاغذ پھینکتے ہوئے فروٹ کھا کر چھلکے سڑک کی زینت کی بنا کر گزرتا ہوا نظر نہیں آتا کوئی بھی شخص پیشاپ کے فوری اخراج کے لئے ازار بند دانتوں میں دبائے کسی بھی جگہ بے نیازی سے اکڑوں بیٹھکر ضرورت سے فارغ ہوتا ہو کہیں پان کی پیک گراتے ہوئے یا نسوار زدہ لعاب دہن گرتا ہوا دکھائی نہیں دیتا ہماری بدقسمتی ہے کہ نہ تو گھر سے کردار سازی ہوتی ہے اور نہ ہی تعلیمی اداروں میں اس جانب توجہ دی جاتی ہے نتیجہ یہی کہ جن پڑھے لکھے لوگ یاد دہانی یا ہدایات کے ذریعے اسمبلی میں سرکلر جاری ہوا فسوس ناک ہے ہم تو چائے بھی سڑکے مار کر بآواز بلند پینے والے لوگ ہیں روٹی سالن کا گرم گرم لقمہ اگر زبان پر رکھ لیا جائے تو منہ کھول کر سانس سے ٹھنڈا کرنے سے اسے دائیں بائیں گھماتے ہوئے بات کا ٹیمپو بھی نہیں ٹوٹنے دیتے چاہے سننے والے کو سمجھ آئے نہ آئے اپنا کھاتے پیتے ہیں کسی سے لے کر تو نہیں کھاتے اور یہ بات ہے کہ مانگ کر یا ادھار مانگ کر کھانے والی قوم ہیں اس پر ہمیں ندامت یا پریشانی نہیں قوموں پر ایسا وقت آتا رہتا ہے ان کے ہاں سے جو چلا جاتا ہے ہمارے ہاں باقی رہتا ہے کیونکہ اسے یہاں پھلنے پھولنے کی فضا مددگار محسوس ہوتی ہے کیونکہ لے پالک بھی اپنی اولاد کی طرح ہی سمجھے جاتے ہیں دعا کریں اللہ پاک ہم میں ہماری ذات سے وہ صفات پیدا کرے ہماری خواہش سے زیادہ ہمیں ملے بھوک ننگ دور ہو زندگی کی آسانیاں ملیں گھروں میں آسودگیاں ہوں ملک اور قوم سے سچی محبت اور لگاو پیدا ہو ملک خوش حال ہو آنے والی نسلیں خوشحال ہوں ملک کو نچوڑ کر کھانے والوں کو ہدایت ملے اسے غریب کے جسم کی طرح کا ڈھانچہ بنا دینے والوں کو شرم،حیا کا پاور فل کرنٹ لگے اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں اللہ اور اس کے محبوب کی تعلیمات کی حکمرانی ہو معاشرہ صحیح اسلامی اقدار کا حامل ہو ادب اور تسلیم پیدا ہو پھر آسانیاں ہوں گی خالق سے دکھاوے کا پیار مخلوق سے بیزاری نہ ہویہ جو میں کا نشہ ہے میں کو میں ڈرایﺅ کر رہا ہے میں کو میں حکم دیتا ہے اور میں چل پڑتا ہے اس سے نجات ملے یہ میں راستے بدلتا ہے رنگ بدلتا ہے خود خواہش کرتا ہے خود حرکت کرتا ہے خود اچھا برا سوچتا ہے اور پھر خود اس کے نتیجے میں گرفتار ہو جاتا ہے میں عامل جو معمول کو بڑے چرکے دیتا ہے میں سے آزاد ہو کر اس کی طرف جانا ہے جس کی کائنات ہے میں کچھ بھی نہیں اور میں بہت کچھ ہے صرف انسانی فطرت کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔