کالم

آصف زرداری پاکستان کا نیلسن منڈیلا سب پہ بھاری

آصف علی زرداری جب پہلی بار 2008 میں صدر مملکت کے منصب جلیلہ پر سرفراز ہوئے تو سب سے بڑا کام بانی پیپلز پارٹی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کیس میں صدارتی ریفرنس دائر کرنا سمجھا اس ریفرنس کا ہی نتیجہ ہے کہ زرداری صاحب 9مارچ 2024 کو دوبارہ صدر پاکستان منتخب ہوئے ۔ دوہزار گیارہ کا دائر کردہ ریفرنس کا تین روز قبل مختصر فیصلہ سنایا جا چکا ہے۔ آصف علی زرداری کی سیاسی زندگی نشیب و فراز پر مشتمل ہے۔ تیرا سال جیل کاٹی ۔ بھٹو فیملی کا ساتھ نہ چھوڑا اور نہ ہی پیپلز پارٹی سے الگ ہوئے۔بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو سیاسی میدان میں اتارا ۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ ضیا الحق نے الٹا ،اس سے پہلے بھی ایوب خان ایسے ہی اقتدار پر قبضہ کرکے طویل عرصے تک اقتدار کے مزے لے چکے تھے۔ ضیاالحق نے بھی وہی راستہ اپنایا ۔ بھٹو کو سیاست سے ہٹانے کےلئے ان پر ایک قتل کا مقدمہ بنایا جس میں فیر ٹرائل نہیں دیا گیا اور چار اپریل 1979کو بھٹو کو پھانسی دی گئی۔ یہ آمریت کا دور تھا، بھٹو کا یہ کیس جس انداز سے چلا اور سزا دی گئی ۔ اس سزا کو جوڈیشل مرڈر کہا گیا یہ ججز کے ذریعے بھٹو کا قتل تھا۔ججز جن کا کام انصاف دینا ہوتا ہے وہی اپنے ہاتھوں جوڈیشل مرڈر کر گزرتے ہیں۔ اس عدالتی فیصلے کے خلاف ریویو بھی دائر ہواتھا مگر اس کا رزلٹ بھی صفر نکلا۔ جس نے بھٹو کا جوڈیشل قتل کروایا ایک دن وہ خود بھی قدرت کی پکڑ میں آگیا۔آصف علی زرداری نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمت نہ ہاری بطور صدر پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی سزا کیخلاف دوہزار گیارہ میں صدارتی ریفرنس دائر کیا۔ لیکن یہ ریفرنس سرد خانے کی نذر ہوتا رہا۔ تیرہ سال بعدچیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریفرنس کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے سرد خانے سے نہ صرف اس ریفرنس کو نکالا بلکہ فیصلہ سنا کر ثابت کیا کہ بھٹو کو فیر ٹرائل نہیں دیا گیا تھا۔اب تک چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دو تاریخی فیصلے سنا چکے ہیں۔ایک پرویز مشرف کی سزا کو بحال رکھنے کا فیصلہ اور دوسرا بھٹو کے صدارتی ریفرنس کا فیصلہ۔ یہ بھٹو کا تاریخی ریفرنس تھا۔ جسے راقم ہر تاریخ کو سنتا رہا۔ چھ مارچ کو ساڑھے گیارہ بچے بنچ ون میں اس کیس کا فیصلہ لاجر بنچ نے متفقہ مگر مختصر اپنی رائے دیتے ہوئے چیف جسٹس نے پڑھ کر سنایا کہ بھٹو کا ٹرائل شفاف نہیں تھا۔ عدلیہ نے ڈر خوف میں فیصلہ دیاتھا۔ کہا عدلیہ ماضی کی غلطی کو تسلیم کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ کہا فیصلہ کالعدم ہو سکتا ہے نہ تبدیل کرنے کا کوئی طریقہ کار موجود ہے۔ یہ رائے متفقہ طور پر نو ججز نے دی ہے۔ جس وقت بنچ ون میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی ریفرنس کا فیصلہ سنا رہے تھے تو بلاول بھٹو زرداری روسٹرم پر سینٹر رضا ربانی اور سینٹر فاروق ایج نائیک کے ساتھ کمرہ عدالت کے روسٹرم پر کھڑے تھے۔ کورٹ کی رائے سننے کے بعد بلاول بھٹو کمرہ عدالت سے باہر جاتے ہوئے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور آنکھوں سے آنسو صاف کرتے کمرہ عدالت سے باہر چلے گئے۔کمرہ عدالت میں پارٹی کے لیڈران محترمہ شیری رحمان ، محترمہ مہرین انور راجہ، سابق چیرمین سینٹ نیئر حسین بخاری سینٹر شہادت اعوان، سینٹر سید وقار مہدی، کائرہ صاحب بھی اس روز غمزدہ اور فیصلے سے خوش تھے۔ آصف علی زرداری اکثر محترمہ رخسانہ بنگش کے ہمراہ ریفرنس سننے آتے رہے ۔ ریفرنس سناتے وقت ایسے دکھائی دیا جیسے بھٹو آج ہی شہید ہونے ہیں۔آصف علی زرداری نے صدارتی ریفرنس دائر کر کے بھٹو خاندان کے رشتے کو مزید مضبوط کیا تھا ۔ آج ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو شہید کی روح بھی آصف علی زرداری پر خوش ہوگی۔ شائد یہی وجہ ان سب کی دعاو¿ں سے ایک بار پھر زرداری صاحب صدر پاکستان بن چکے ہیں۔ صدارتی ریفرنس کو دیکھ کر لگتا ہے آصف علی زرداری کو قدرت نے صدر پاکستان کے منصب سونپا ہی اس لیے تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ان ججز سے ہی کہلوانا تھا کہ بھٹو کا ٹرائل شفاف نہیں ہوا تھا۔ پھانسی غلط دی گئی تھی ۔بھٹو انصاف کی جنگ میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ اس عدالتی رائے کے بعد سچ ثابت ہوا کہ بھٹو شہید تھے اور ہیں ۔یہ بھی ثابت ہوا کہ اس وقت جوڈیشری آزاد نہ تھی۔ ہمارے ہاں اکثر جوڈیشری کے فیصلے قانون کے مطابق، ججز نہیں دیتے ۔ خاص کرجب کسی سیاسی جماعت کو گھر بھیجنا ہو، سیاسی لیڈروں سے نجات حاصل کرنی ہو تو جوڈیشری کا سہارا لیا جاتا ہے۔ پھر جوڈیشری کے ججز جج نہیں رہتے ؟ سمجھ نہیں آتی ایسا یہ کیوں کرتے ہیں جنھوں نے بے گناہوں کو سزائے موت دی اور اب دنیاسے جا چکے ہیں ، ان کو قبروں سے نکال کر سزائیں نہ دیں لیکن ان کی مراعات پنشن بند کریں جائیدادیں واپس لیں۔ جب تک ایسے ججز کو سزائیں نہیں دیں گے یہ سلسلہ جاری رہیگا۔ قدرت خود بھی اسی دنیا میں بھی برے کاموں والوں کو سزا دیتی ہے اور اچھے کاموں کا صلہ بھی دیتی ہے۔ آصف علی زرداری نے بھٹو ریفرنس دائر کر کے جہاں اس سسٹم کو ججز کو بے نقاب کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ قدرت نے انہیں اس کا صلہ ایک بار پھر صدر پاکستان بن جانیکی صورت میں دیا ہے۔ آصف علی زرداری بے شمار خوبیاں کے مالک ہیں ۔ یاروں کے یار ہیں۔لج پال ہیں۔ ان کی سب سے خوبی یہ ہے کہ یہ احسان فراموش نہیں ہیں۔ جو بھی ان کی زندگی میں انکے کام آیا اسے ہمیشہ یاد رکھا۔بھٹو کی پھانسی کے سزا ہو جانے پر کچھ کا خیال تھا کہ اب بھٹو کی پھانسی کی سزا کے داغ کو مٹایا نہیں جا سکے گالیکن مرد حر،زرداری سب پہ بھاری اور پاکستان کے نیلسن منڈیلا نے صدارتی ریفرنس دائر کر کے بھٹو کو بے گناہ ثابت کر دکھایا۔ آصف علی زرداری کی دور اندیشی وثرن نے ذوالفقار علی بھٹو پر لگے داغ کو سپریم کورٹ کے نو رکنی بنچ کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالتی رائے بھٹو کے حق میں دے کر تاریخ رقم کر دی ۔ اس کا کریڈٹ آصف علی زرداری صدر پاکستان کو ہی جاتا ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے زرداری ، تیرے جے پت جمڑماں واں کدھرے کدھرے کوئی۔ صدارتی ریفرنس کی کارروائی سننے آصف علی زر داری ، بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کے لیڈران کےساتھ کمرہ عدالت اکثر آیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ بارہ فروری کو کیس سننے سابق وزیر اعظم سابق اسپیکر قومی اسمبلی ،فخر پوٹھوار راجہ پرویز اشرف آصف علی زرداری بلاول بھٹو زرداری کےساتھ کمرہ عدالت میں ایک ساتھ بیٹھ کر کیس کی سماعت سن رہے تھے۔ عدالت کا ماحول جب تھوڑا ریلکس ہوا تو راقم نے راجہ صاحب سے پوچھا راجہ صاحب یہ آپ کےساتھ کون ہے۔یہ سن کر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو نے بھی مجھے غور سے دیکھا کہ یہ کون وکیل ہے جو زرداری صاحب کو نہیں جانتا ۔ راجہ صاحب نے مسکرا کر کہا یہ آصف علی زرداری صاحب ہیں۔ یہ سن کر میں نے کہا نہیں۔یہ پاکستان کے نیلسن منڈیلا ہیں۔ یہ سن کر زرداری صاحب نے مجھے پہچان لیا پوچھا کیسے ہو۔کیونکہ یہ نیلسن منڈیلا کا خطاب میں نے اپنے کالم ٹی ٹاک میں دوہزار چار میں دیا تھا۔جب زرداری صاحب نے 13سال جیل کاٹی تھی۔ میرا نیلسن منڈیلا کا کالم پڑھ کر زرداری صاحب نے کراچی سے فون کیا تھا پھر اسلام آباد زرداری ہاو¿س میں لنچ پر بلایاگپ شپ کی تھی ۔صدارتی ریفرنس کے موقع پر اس روز زرداری صاحب کو یہ سب یاد تھا میں نے کہا سر مان لیا مہنگائی ہے لنچ نہیں آپ کروا سکتے کبھی چائے پر ہی بلا لیں جس پر انہوں نے راجہ پرویز اشرف سے مسکراتے ہوئے کہا اسے گپ شپ کےلئے چائے پر بلائیں ۔ آصف علی زرداری نے دوسری بار صدر مملکت بن کر ثابت کیا ہے کہ وہ واقعی ہی زرداری صاحب سب پہ بھاری اور پاکستان کے نیلسن منڈیلا ہیں۔صدر پاکستان دوبارہ بن جانے پر اور صدارتی ریفرنس کی کامیابی پر آصف علی زرداری بلاول بھٹو زرداری اور تمام پیپلزپارٹی کے لیڈران سیاسی ورکروں جیالوں کو بہت بہت مبارک!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے