محمد افضل صفی بنیادی طور پر اردو زبان و ادب کے استاد ہیں ۔ ہمارے یہاں جو استاد "استادی دکھانے ، جتانے اور منوانے ” کی طرف مائل یا ایسا کرنے پر قائل نہ ہو سکیں ،تو پھر وہ پڑھنے ، پڑھانے ، سوچنے سمجھنے ، مشاہدہ کرنے اور لکھنے کو اپنی دلچسپی کا محور بنا لیتے ہیں۔افضل صفی شاعر تو پہلے سے اور سراسر اپنی ذاتی ذمہ داری پر تھے ، لیکن محقق اور نقاد اپنی تعلیم و تربیت اور مشق سخن کے ساتھ ساتھ "مشق ستم” کی وجہ سے بنے ہیں ۔ ایک مقبول و مطلوب شاعر کے طور پر اب تک ان کی شاعری کے تین مجموعے سامنے آ چکے ہیں ۔ان کے شعر ٹیلی ڈراموں میں بھی سنائی دیتے ہیں، یوں ان کی بطور شاعر محبوبیت کا اندازہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ایک محقق کے طور پر ان کی کارگزاری لائق تحسین رہی ہے ۔انہوں نے ایم فل کی سطح پر ہمارے ایک بزرگ دوست ، اردو کے نامور محقق اور متنی تحقیق کے محنتی استاد ڈاکٹر گوہر نوشاہی کی محققانہ خدمات پر مقالہ لکھا تھا ۔یہ مقالہ بھی شائع ہو چکا ہے۔مختلف تحقیقی جرائد میں شائع ہونے والے ان کے مقالات ان کی تحقیقی و تنقیدی بصیرت کی طرف اشارہ کرتے دکھائی دیتے ہیں مجھے ان کی طرف احمد فراز پر ان کے ایک جدا نوعیت کے تحقیقی کام نے متوجہ کیا تھا ،اور اسے پڑھ کر مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ ؛اردو کے نامور شاعر احمد فراز کی شاعری کے فنی اور اسلوبیاتی مطالعے پر مشتمل ان کا ڈاکٹریٹ سطح کا تحقیقی کام اپنے معیار و اعتبار کی وجہ سے یقینا ان کی پہچان بن جائے گا۔محمد افضل صفی جیسے سنجیدہ اور اپنے تحقیقی موضوع کی جزئیات کو سمجھنے والے اسکالرز نہ صرف سندی تحقیق کا اعتبار قائم کرتے ہیں ،بلکہ اپنے علمی شعبے کے وقار میں بھی اضافے کا باعث بنتے ہیں۔محمد افضل صفی ہماری یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی اردو کے ایک ممتاز اسکالر رہے ۔مجھے یاد ہے کہ انہوں نے اپنے مقالے کے مجلسی دفاع میں نہایت قابلیت ، اعتماد اور لیاقت و ذہانت کے ساتھ تمام سوالوں کے اطمینان بخش جوابات دیئے تھے اور ایک محنتی اور لائق ریسرچ اسکالر کے طور پر اپنے تحقیقی مقالے کا دفاع کیا تھا۔ احمد فراز کی شاعری کے موضوعات اور فکریات پر محققین متوجہ رہے ہیں ۔احمد فراز کی گرویدہ کر لینے والی شاعرانہ جہات اور مزاحمت بھی عنوان بنتی ہے ۔لیکن محمد افضل صفی نے احمد فراز کی شاعرانہ عظمت اور رفعت کو بہ انداز دیگر دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے احمد فراز کی شاعری کے فنی اور اسلوبیاتی مطالعے کو اپنی توجہ اور تحقیق کا عنوان بنایا ہے ۔وہ خود بھی شاعر ہیں ، شعر کی رمزیات کو اچھی طرح سے جانتے اور سمجھتے ہیں ۔انہوں نے نہایت توجہ اور جامعیت کے ساتھ علم بیان و بدیع ، علم عروض، ہیئت شعری، صوتی اور صرف و نحو کے پیمانوں سے احمد فراز کی شاعری کے اس طلسم کو دریافت کرنے کی کوشش کی ہے ،جس نے گزشتہ صدی کے نصف آخر سے لے کر رواں صدی تک اپنی مقبولیت و محبوبیت اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنی عصری معنویت کو قائم رکھا ہوا ہے۔ احمد فراز پر اس مختلف نوعیت کی عمدہ تحقیقی کاوش نے بیشہ تحقیق کے شیر مرد کے مفاخر میں اضافہ کیا ہے۔ محبت ، شاعری اور ادبی تنقید کا ذوق و شوق کبھی ایک بار تک محدود نہیں رہتا۔خود اردو کے نامور اور محبوب شاعر فیض احمد فیض کی تحقیق کے مطابق زندگی میں کام اور محبت ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں، اور بیشتر صورتوں میں دونوں کو ادھورا چھوڑنا پڑ جاتا ہے۔افضل صفی کے معاملات محبت سے تو میں بالکل ناواقف ہوں، مگر یہ جانتا ہوں کہ وہ مسلسل شعر کہنے اور ادبی تنقید و تجزیے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ان کی حال ہی میں سامنے آنے والی ساتویں تصنیف "رمز شناس "بھی ایسے ہی تنقیدی تجزیات پر مشتمل ہے ۔ اساطیری کہانیوں میں "سات” کا عدد بڑی اہمیت رکھتا ہے، سات سر ، سات پھیرے ، شہزادی کو حاصل کرنے کےلئے سات سوالوں کے جواب کی تلاش ، پھر بتایا اور یقین دلایا گیا کہ زمین بھلے چھ دن میں بنی ہو، آسمان سات بنائے گئے تھے ، اسی تسلسل میں بعد از حیات جس بہشت کا خواب دکھائے جاتے ہیں ،اس کے بھی سات دروازے بتائے جاتے ہیں ۔ زمین پر براعظم بھی سات، قوس قزح بھی سات رنگوں کا مجموعہ ، یہاں تک کے ہفتے کے دن بھی سات شمار ہوتے ہیں ۔ایسے میں ایک بسیار نویس اور تیز قلم مصنف کی ساتویں کتاب ایک جدا معنویت اختیار کر جاتی ہے ۔ ڈاکٹر افضل صفی کو بسیار نویس اس لیے لکھا ہے کہ وہ اپنی سوچ اور فکر و خیال کو مسلسل قلمبند کرتے رہتے ہیں، یعنی یوں کہیئے کہ لکھ کر سوچتے ہیں۔تیز قلم اس لیے کہتا ہوں کہ وہ اپنے تصنیفی کام پڑھنے والوں کے سامنے پیش کرنے میں ہمیشہ سبقت لے جاتے ہیں ،یا ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ساتویں کتاب سے پہلے ڈاکٹر افضل صفی صحرا سے گفتگو (شاعری)اگست 2000، نگاہیں اداس ہیں(شاعری)مارچ 2004، ڈاکٹر گوہر نوشاہی بحیثیت محقق(تحقیق)2010 ، صحرا اداس ہے(شاعری)2011 ، احمد فراز کی شاعری کا فنی اور اسلوبیاتی مطالعہ(تحقیق)2023 ( ایوارڈ یافتہ )اور جمال لفظ و معنی (تنقیدی تبصرے )2024 کے زیر عنوان چھ تصانیف سامنے لا چکے ہیں۔ رمز آشنا اگست 2024 میں منظر عام پر آنے والا ،ان کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کا ساتواں مجموعہ ہے ۔ ڈاکٹر افضل صفی تعلیم ، تحقیق ، تنقید اور تجزیات کی طرف ہمہ وقت متوجہ کیوں رہتے ہیں؟ اپنی تازہ تالیف کے عنوان کے ذریعے انہوں نے اس اہم سوال کا پہلی بار جواب پیش کرتے ہوئے اقرار و اعلان کر دیا ہے کہ؛ دراصل وہ بڑے "رمز شناس” ہیں۔ اردو میں اس سے پہلے صرف یہی پڑھنے کو ملا کرتا تھا کہ فلاں صاحب "بڑے وہ” ہیں۔یہاں "وہ ” سے کیا مراد ہوتی ہے ،کچھی سمجھ نہ سکا۔اب افضل صفی کے حوالے سے یہ علم ہوا ہے کہ اس سے مراد "رمز شناس” ہونا رہا ہے اور اب بھی ہے ۔ افضل صفی کے اس دعوے کی تصدیق تو دل وجان سے زیادہ قریب شخصیت ہی کرسکتی ہے ،ورنہ عمومی طور پر پنجاب کے مردوں کو یہاں کی محنتی ، سخت جان اور تر دماغ خواتین سجن بے پروا ، بھولا ، نادان اور اشارے نہ سمجھنے والا مست خیال کرتی رہی ہیں، رانجھے اور مرزے جٹ کا کردار اس کی تصدیق بھی کرتا ہے ۔ڈاکٹر افضل صفی پنجاب کے شیر دل جوان ضرور ہیں ، لیکن یہ کتنے رمز شناس ہیں ،اس کے لیے اندرونی شہادت کا حصول ابھی تک باقی ہے۔ رمزشناس کے حوالے سے ایک موقف مصنف کا بھی ہے۔ڈاکٹر افضل صفی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛ "رمز آشنا کون ہیں؟ یہ شہر طلسمات کے باسی ہیں۔ پیچھے مڑ کر دیکھیں گے تو پتھر کے ہو جائیں گے۔ اس لیے وہ پتھر بھی سہتے رہتے ہیں اور آگے کی جانب قدم بھی بڑھاتے رہتے ہیں۔۔۔۔یہ اسی دھرتی کے باشندے ہیں، اسی آب وگل کے پروردہ ہیں ، انھی فضاں میں سانس لیتے ہیں۔ فرق ہے تو صرف اتنا ہے کہ ان کے سینے میں حساس دل دھڑکتا ہے۔ یہ ہر دکھ سکھ کو جلد محسوس کر لیتے ہیں۔ عام آدمی کی نسبت ان کی قوت مشاہدہ زیادہ ہوتی ہے۔ یہ فطرت کے ساتھ زندہ رہنا پسند کرتے ہیں۔ یہ ہواں کے رمز آشنا اور پرندوں کے ساتھی ہوتے ہیں۔ یہ صحراں کا مزاج سمجھتے ہیں اور سمندروں سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ یہ پھولوں سے باتیں کرتے ہیں اور خوشبوں کو راستہ دکھاتے ہیں۔ "ڈاکٹر افضل صفی کی تازہ تالیف رمز شناس ان کے مختلف اوقات اورمتنوع جراید میں شائع شدہ مضامین و مقالات کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں ان کے 17 مقالات شامل ہیں، جن میں ڈاکٹر افضل صفی نے مختلف معاصر قلم کاروں کی تخلیقی کاوشوں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کر کے اپنے رمز شناس ہونے کے تاثر کو پختہ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔اس مجموعے میں شامل ڈاکٹر خیال امروہوی کے بارے میں پہلے تین مضامین خاصے کی چیز ہیں۔ان میں ڈاکٹر خیال امروہوی کی شاعری کا جمالیاتی طرز احساس ، ڈاکٹر خیال امروہوی کی نظم المیہ کا اسلوبیاتی مطالعہ اور ڈاکٹر خیال امروہوی کی شاعری میں صنائع بدائع کا خصوص شامل ہیں ۔ایک مضمون منیر نیازی کی شاعری کا بدیعی رنگ و آہنگ بھی دلچسپ ہے بقیہ 13مضامین معاصر ادبا و شعرا کی قدر شناسی کا احاطہ کرتے ہیں۔ امید ہے کہ ڈاکٹر محمد افضل صفی اس تصنیفی سلسلے کی روانی اور فراوانی کو جاری و ساری رکھتے ہوئے اپنی رمز شناسی کی حدود میں توسیع کرتے رہیں گے ۔