اسے ایک المیہ کہیئے یا بدقسمتی کہ ہمارے وطن عزیز کو جو بھی حکمران ،آمریا سیاستدان ملا،کیا ”خوب“ملا،ہر ایک نے اس ملک کی محبت کادم بھرا،اس کے لیے جان تک قربان کرنے کا عزم کیا،اس کی ترقی و خوشحالی کا اراگ الاپا،اپنے اقتدار کو طول دینے کےلئے ،وطن عزیز کی بہتری اور اسلام کی سربلندی کےلئے بہت نعرے لگائے مگر عملی طور پر کچھ نہ کیا،ہر ایک نے اقتدار پاکر ”بدمست ہاتھی“ کی طرح اس دیس کی عزت ووقار اور اس کی سا لمیت سے کھیلنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی (چاہے وہ حکمران ہو،آمر ہو ، سیاستدان ہویا کسی پارٹی کا لیڈر)ہر ایک نے ” جنتا سیوک “ ہونے کا ڈھونک رچاکر مختلف روپ اور بہروپ اپناکرمختلف شکلوں میں نرالے انگ سے اور نرالے ڈھنگ سے اسے لوٹااور ڈسا ، کسی نے اسے ملک دشمن عناصر کے ساتھ مل کر اس ملک کی ناﺅ ڈبونے کی کوشش کی ، کسی نے اسے ملک کی خیر خواہی اور سا لمیت پاکستان کے نام کا لبادہ اُوڑھ کر اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کی،کسی نے اسے مہاجر قوم ،دیگر قوموں اور صوبوں کے دفاع اور ان کے تحفظ کانام لے کر اغیار کے ساتھ مل کر ڈبونا چاہا،افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک عزیز کے ساتھ ان میں سے کوئی بھی مخلص نہیں،سب ہی بزنس مین ہیں،کوئی بھی اس دیس کا خیر خواہ نہیں،مشکل وقت میںملک وقوم کو چھوڑ کر دیار غیر میں جابسیں گے،سب ہی اس ارضِ وطن کی بربادی کا تماشا دیکھنے والے ہیں،مختلف شکلوں،مختلف حیلوں ، بہانوں ، ڈراموں ، مکارانہ کارروائیوں ، مصالحانہ پالیسیوں کے باعث اس ملک کی جڑوںمیں بیٹھے اسے اغیار کی ایک ”تھپکی“اور”خواہش “پر کھوکھلا کرنے بیٹھے ہیں،اپنے اقتدار اور مفادات کی ہوس لیے اور اس میں مسلسل اضافہ کی خاطر اس ملک کی سلامتی تک کو داﺅ پر لگائے ہوئے ہیں ، ذرا نہیں سوچتے کہ ان کی آپسی اور مفاداتی جنگ کا یہ ملک ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا،اقتدار اور مفاد کے حریص پل بھر کےلئے بھی نہیں سوچتے کہ ہمارے یہ اقدامات بیرون دنیا ہمارا وقار خراب اور ہمیں جگ ہنسائی کا موجب بنارہے ہیں،ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے وقت اپنی عزت بھی نہیں دیکھتے،ملکی وقار بھی داﺅ پر لگا دیتے ہیں،ان میں بعض کا یہ عالم ہے کہ جوشِ خطابت میں ملکی سلامتی اور اس کا وقار بھی داﺅ پر لگا دیتے ہیں اور اپنے غیر ذمہ درانہ بیانات کے باعث حکومت ِوقت اورسیکیورٹی اداروں کوبھی مشکل اور آزمائش میں ڈال دیتے ہیںاور اس پر ذراسابھی ندامت اور شرمندگی محسوس نہیں کرتے،(الٹا توجہ دلانے پر پوری ڈھٹائی کے ساتھ اس پر اڑ جاتے ہیں)ا س ملک کی یہ سب سے بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ اس کی قسمت میں ہی اپنوں سے زخم کھانا لکھا ہے،اس کو اتنا نقصان ان پڑھ لوگوں نے نہیں پہنچایا ،جتنا پڑھے لکھے لوگوں نے دیا ہے۔اِس ملک کو اتنا خسارا عوام نے نہیں دیا ، جتنا ان ”جنتا سیوک“حکمرانوں اور سیاستدانوں نے پہنچایا ہے،ہمیں اتنا خطرہ باہر سے نہیں،جتنا اندر سے ہے۔ہمارا ہر لیڈر چاہے وہ سیاسی ہویا دینی ،اگر حکمران ہے تو مسندِاقتدار کے نشہ میں دُھت اپنی رعایا کو کیڑے مکوڑے سمجھنے لگتاہے اور اگر دینی رہنماءہے تو اپنے ورکرز کی بھاری اکثریت کے زعم میں مبتلااپنے آپ کو ان داتا،سپریم لیڈر ،یہاں تک کے ناقابلِ تسخیر سمجھنے لگتاہے ایسے میں اپنے آپ کو اس ملک کی ”ناگزیر ضرورت“تصور کرتے ہوئے اپنے مشورے ، فیصلے،ایجنڈے زبردستی ریاست پر ٹھونسنے لگتے ہیں اور اوپر سے ان پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میںبھاری بھر ورکروں کا ساتھ ہونے کے زعم میں طاقت کے نشے میں دُھت حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادینے اور سخت اقدامات کی دھمکیاں دینے پر آجاتے ہیںجس کی وجہ سے بیرونی دنیا میں ہمارا اچھا تاثر نہیں ابھرتا،یہ وہ تلخ حقیقتیں ہیںجس نے پاکستان کوکبھی بھی خوشحال و مستحکم نہیں ہونے دیا ، اوپر سے سیاسی و مذہبی قائدین کےلئے لگائے گئے اس بھولی عوام کے یہ نعرے”تیرے جانثار بیشمار“”حاضر حاضر لہو ہمارا“”قائد کا جو غدار ہے ،موت کا حقدار ہے“ہمیں لے بیٹھتے ہیں،ملک کی تباہی وبربادی میں یہ وہ عوامل ہیں جومہلک اور جان لیوا کردار ادا کرتے ہیںاوراس ملک کو بجائے اس کے کہ ترقی کی طرف بڑھے ، تنزلی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔یہ اس ملک کا ہی حوصلہ ہے کہ جو اس سرزمین پر ایسے ایسے انتہاءپسند ، جنونی ، مفادپرست اور ملک دشمن عناصر ،اس ملک کیخلاف بولنے والوں کا بوجھ لیے ہیںاس کے اوپر دندناتے،چنگاڑتے اس دھرتی پر زخم لگارہے ہیں۔