کالم

تارےخ کا اےک المناک باب

محرم کے چاند کے ساتھ ہی تمام دنےا کے مسلمان نواسہ رسول جگر گوشہ علی و بتول ،کشتی انسانےت کے لنگر ،آےات قرآنی کے پےکر کا ےوم شہادت نہاےت عقےدت و احترام سے مناتے ہےں ۔اس ذکر مےں شےعہ اور سنی کی تخصےص نہےں ۔تمام ممالک اپنے اپنے رنگ مےں مجالس اور محفلوں کا انعقاد کرتے ہےں ۔آپؑ کے اہلبےت اور صحابہ کی قربانےوں کا ذکر کےا جاتا ہے ۔کربلا کے واقعات مےں اےسی اےسی فقےدالمثال قربانےوں کے نمونے ملتے ہےں جو ہمےشہ کےلئے حق و انصاف و آزادی کا روشن ترےن باب رہےں گے ۔61ھ کو کربلا کی رےگ زار پر ےہ رونما ہونے والا واقعہ ہماری تارےخ کا اےک قےمتی سرماےہ ہے ۔اس ماہ کے دسوےں دن امام عالی مقام نے اپنے بہتر ساتھےوں کے ساتھ جام شہادت نوش کےا ۔انسانےت کے شرف اعلیٰ کا ےہی وہ مقام ہے جس کے پےش نظر اس ذات گرامی پر دنےا ہزار تحسےن و تبرےک کے پھول نچھاور کرتی ہے ۔امام حسےنؑ کی ےہ تحرےک آمرےت و ملوکےت کے خلاف اےک صدائے احتجاج تھی ۔ےہ قربانی حق و صداقت اور آزادی حےرت کا اےک درس ہے ۔دنےا کی ہر شے کو فنا ہے کےونکہ فانی ہے مگر خون شہادت کے ےہ قطرے جو اپنے اندر حےات الٰہےہ کی روح رکھتے ہےں کبھی فنا نہےں ہوتے ۔اب نہ وہ ےزےد کی جفا باقی ہے نہ زےاد کا ستم لےکن غم حسےنؑ کو ہمےشہ کےلئے دوام حاصل ہے ۔کربلا کے مےدان مےں اہلبےت کے سبھی شرکاءکے اےمان و کردار کا کمال تھا کہ انہوں نے اےمان اور ےقےن کی پختگی کا ثبوت دےا ۔اےمان و عزےمت کے ان پہاڑوں اور صدق و اخلاص کے ان پےکروں کے پاﺅں مےں معمولی سی لغزش بھی نہ آئی ۔ان اہل اےمان نے تو اس وقت بھی اپنے خلاف جلا ل و قتال کے اس مرحلے مےں راہ صدق و صفا سے انحراف گوارا نہ کےا جن کے قاتلوں کو کامل ےقےن تھا کہ ابد تک امام حسےنؑ اور ان کے رفقاءکا کوئی نام لےوا باقی نہ رہے گا لےکن وقت کا فےصلہ مختلف تھا ۔ےزےد کے حصے مےں ہمےشہ کےلئے برائی اور امام حسےنؑ دوامی اچھائی کا نام بن گےا ۔اقبالؒ نے کہا تھا ۔
موسیٰ و فرعون و شبےر و ےزےد
اےں دو قوت از حےات آےد پدےد
دنےا کے نامور مسلم اور غےر مسلم فلاسفہ ،مفکروں ،علماء،سےاستدانوں اور شعراءنے امام حسےنؑ کی اس عظےم الشان قربانی پر ہدےہ تبرک پےش کےا ہے ۔لےکن افسوس کہ گزشتہ تےن چار دہائےوں مےں ہمارے اندر اےسے گروہ پےدا ہو گئے ہےں اور گزشتہ دور مےں فرقہ وارانہ عصبےتوں نے مذہبی ہم آہنگی کی فضا کو غبار آلود کئے رکھا جس کے بد ترےن مظاہرے مسجدوں اور امام بارگاہوں مےں دےکھنے کو ملے ۔فرقہ وارےت کی پےدا کردہ فضا کی صورت بلا شبہ ہمارے لئے باعث شرم ہے ۔غےر مسلموں مےں پہلے ہی مسلمانوں کے خلاف غلط تصورات شدت سے موجود ہےں اور وہ مسلمانوں کو انتہا پسند سمجھتے ہےں اور اےسے رونما ہونے والے واقعات سے دنےا بھر مےں ہماری رسوائی بھی ہوتی ہے ۔ہم سب مسلمانوں کا فرض ہے کہ ہم سب اپنے اپنے فرقے اور مسلک کے اختلاف اور تفرےق کے باوجود ہمےشہ صرف اور صرف مسلمان بن کر رہےں ۔ہر معاملے مےں اسلامی اخوت کے جذبوں سے سرشار ہو کر اپنے اپنے ذہنوں سے تمام جاہلانہ عصبےتوں کو کھرچ دےنا ہر مسلمان کا بنےادی فرےضہ ہونا چاہےے ۔اسلامی نظرےاتی کونسل کے چئےرمےن ڈاکٹر راغب حسےن نعےمی کی زےر صدارت مختلف مسالک کے جےد علمائے کرام کی بےن الاقوامی کانفرنس کے بعد نظرےاتی کونسل نے محرم الحرام کے سلسلہ مےں 20نکاتی ضابطہ اخلاق جاری کےا ہے جس مےں دےگر نکات کے علاوہ کہا گےا ہے کہ کوئی شخص حضور نبی کرےم ،انبےاءکرام ؑ ،صحابہ کرام ؓ،امہات المومنےنؓاور اہلبےت عظامؓ کی توہےن نہےں کرے گا ۔کوئی فرد ےا گروہ توہےن رسالت کے مقدمات کی تفتےش و استغاثہ مےں رکاوٹ نہےں ڈالے گا اور کوئی شخص کسی مسلمان کی تکفےر نہےں کرے گا ۔کسی مسلک ،کسی شخص ےا ادارے کو کسی کے خلاف توہےن پر مبنی جملوں ےا اعتراضات کی اجازت نہےں ہو گی ۔عاشورہ محرم مےں بلاشبہ سوگواروں مےں غم و اندوہ کے طوفان امڈ آتے ہےں مگر اس غم حسےنؑ سے ہر صداقت شعار کو اےک نئی قوت اےمانی حاصل ہوتی ہے ۔ےوں تو اسلام کی پوری تارےخ اےک روشن چراغ ہے مگر اس کی تابانی مےں کربلا کے شہےدوں کا خون مسلسل اضافے کا باعث ہے ۔اس کربلا کے سانحہ سے سبق ملتا ہے کہ مظلومےت سے برتر کوئی قوت نہےں، استبداد کا اپنے تحفظ اور سلطنت کے استحکام کےلئے طاقت و جبروت کے حصار تعمےر کرنا اس کے کمزور ہونے کا ہی ثبوت ہوتا ہے ۔امام عالی مقام نے حق کے اصولوں کی خاطر جان دے کر جو مثال قائم کی وہ ہر ظلم و استبداد کے خلاف بے نواﺅں کےلئے سرماےہ قوت بنی رہے گی ۔جہاں جہاں صداقت اور باطل کے درمےان تصادم کی صورت موجود ہے وہاں حسےنےت کا جذبہ ہی مشعل راہ ہے ۔اسلام مےں وحدت فکرو علم کو اولےن حےثےت حاصل ہے لےکن افسوس کہ اسی عالمگےر دےن کو ہم اپنے ملک مےں اجنبی محسوس کرتے ہےں ۔ہم چھوٹی چھوٹی اکائےوں مےں تقسےم ہو گئے ،محبت و رواداری کی جگہ باہمی عداوت و بے زاری نے لے لی ۔آج کونسا عذاب ہے جو مسلمانوں پر نازل نہےں ۔باہمی کشت وخون ،معاشی تنگدستی ،اغےار کی غلامی ،طاغوت کا سےاسی غلبہ ،ننگی ثقافت ،تہذےبی پسماندگی غرض کوئی اےسی آفت نہےں جو آج امت مسلمہ پر طاری نہ ہو ۔آج غےر مسلم طاقتےں ےہود وہنود امرےکہ کی سر پرستی مےں متحد ہےں ۔مسلمان ہر قسم کے وسائل پر تصرف رکھنے کے باوجود اپنے باہمی انتشار کی وجہ سے ذلےل و خوار ہو رہے ہےں ۔محرم الحرام کے اس ماہ مقدس مےں امام عالی مقام کی شہادت سے سبق لےتے ہوئے اپنے اندر وحدت ملی کا احساس پےدا کرےں ۔اس وقت ہمارے چاروں طرف خطرات کا اےک طوفان ہے ۔ےہ تسلےم ہے کہ موجودہ حالات مےں مذہبی منافرت کو بہ ےک جنبش قلم ختم نہےں کےا جا سکتا لےکن بتدرےج مناسب اقدام کے ساتھ صحےح سمت مےں پےش رفت جاری رہے تو فرقہ وارےت کی گرہےں خود بخود ڈھےلی پڑجائےں گی ۔خدا کرے اےسا ہی ہو اور مسلمانوں کو وہ دن دےکھنا نصےب ہو کہ ان کے باہمی اتحاد سے ان کی تارےک رات سپےدہ سحر مےں تبدےل ہو کر قوم کو منور کر دے ۔مذہبی دہشت گردی اور مذہبی منافرت کی آڑ مےں دشمن اسلام کی سےاہ کارےوں سے قوم کو ہمےشہ کےلئے نجات مل جائے ۔غم حسےنؑ اور اسوہ شبےری ہم سب کی مشترکہ مےراث ہے ،مےری تمام علمائے کرام ،ذاکرےن حضراات اور تمام مکاتب فکر کے تمام اہل نظر و دل سے گزارش ہے کہ مسلمانوں کےلئے اس پر آشوب دور مےں اےک دوسرے کےلئے وسعت نظری اور برداشت کا مظاہرہ کرےں اور ان کی عظےم قربانی کے اصل مقاصد سے قوم اور عوام کو شعور و آگہی دےں ۔آج اس اسلامی سال کے آغاز پر رواداری اور باہمی اتحاد و ضبط اور انصاف جےسی اقدار کو اپنے اندر رواج دےں ۔اقبالؒ نے خصوصی طور پر علمائے کرام کے کلےدی کردار جو وہ امت مسلمہ کے اتحاد کےلئے کر سکتے ہےں فرماےا تھا ۔
وصل کے اسباب پےدا ہوں تےری تحرےر سے
دےکھ کوئی دل نہ دکھ جائے تری تحرےر سے
امت مسلمہ کو آج پھر وےسا ہی معاملہ درپےش ہے ،پھر حالات وہی ہےں ،دور حاضر کی جابر طاقتےں کشمےر اور فلسطےن کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہےں ۔آج بھی خون ناحق بہاےا جا رہا ہے ۔فلسطےن مےں بے کس نہتے عوام ،بچوں ،بزرگوں اور خواتےن پر بمباری روز مرہ کا معمول بن چکی ہے لےکن ان تمام مسائل کا حل مسلمانوں کے باہمی اتحاد ہی مےں مضمر ہے ۔امت مسلمہ کی آج کےفےت اےسی ہی ہے جےسی کہ کربلا مےں ،آج بھی دل امام حسےنؑ کے ساتھ اور تلوارےں ےزےد کے ساتھ ہےں ۔اس مقدس مہےنے مےں دعا کرےں ،رب دوجہاں اس پارہ پارہ امت مسلمہ کو ےکجا کر دے اور مسلم حکمران آپس کی معمولی رنجشےں بھلا کر متحد ہو جائےں ۔اےک مضبوط اسلامی بلاک مسلمان ملکوں کی سلامتی اور تحفظ کا ضامن ہو سکتا ہے لےکن حضرت علامہ اقبالؒ نے فرماےہ تھا کہ
کر سکتی ہے بے معرکہ جےنے کی تلافی
اے شےخ حرم تےری مناجات سحر کےا
اور مولانا محمد علی جوہر نے بھی درست کہا تھا کہ
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے