بھارت اپنی فضائیہ کو جدید بنانے کےلئے پریشان ہے۔ بھارت کےلئے فضائیہ کو جدید بنانے کےلئے روسی اور امریکی پیشکش اسے مزید پریشانی میںمبتلا کر رہی ہیں۔ بھارت کو اپنی فضائیہ کو خطے میں دوسری ممالک سے ہم پلہ رکھنے میں بڑی مشکلات کا سامنا ہے۔ بھارت کو اس وقت 3 بڑے چیلنجز درپیش ہیں جن میں فنڈنگ، دیسی ساختہ جنگی طیارے بنانے میں تاخیر اور غیر ملکی طیاروں پر انحصار شامل ہے۔ بھارت کو اس وقت فضائی بیڑے میں کمی کا سامنا ہے اگر بھارت اپنی مقامی جنگی طیارہ سازی کو وقت پر مکمل نہیں کر سکا تو اسے ہنگامی طورپر بیرون ملک سے خریداری کرنی پڑ سکتی ہے۔ بھارت کے سامنے اس وقت 2 آپشنز موجود ہیں، پہلا امریکہ سے لڑاکا طیارہ F-35 خریدے یا پھر روسی طیارے SU-57 کا انتخاب کرے۔ امریکہ کی طرف سے ایف 35 اور روس کی طرف سے ایس یو 57 کی پیشکش بھارتی فضائیہ کو مسائل سے نکالنے کی بجائے مزید مسائل کا شکار کررہی ہے۔ بھارت کا اصل ہدف دیسی ساختہ جنگی طیارے تیار کرنا ہے۔ بھارت نے 500 سے زائد نئے طیارے بنانے کا منصوبہ بنایاہے۔ جن میں مقامی تیار شدہ تجیس بھی شامل ہے۔ تاہم مقررہ وقت پر دیسی ساختہ جنگی طیارے تیار نہ ہوئے تو بھارت کے مسائل میں اضافہ ہو جائے گا۔ بھارتی وزیر اعظم مودی کے دورہ امریکہ کے دوران امریکی صدر ٹرمپ نے بھارت کو F-35 طیارے دینے کا عندیہ دیا لیکن اس کی بھاری قیمت اور محدود پیداواری حقوق بھارت کےلئے چیلنج بن سکتے ہیں۔ دوسری جانب بھارت 2018 سے روسی ایس یو57 کی مشترکہ تیاری سے علیحدگی اختیار کر چکا ہے جس کی وجہ سے اس طیارے کے انتخاب کے امکانات کم ہیں۔ ماہرین کے مطابق بھارت ممکمہ طورپر روسی اور امریکی پیشکش کو قبول کرنے کی بجائے دیسی ساختہ جنگی طیارے مقررہ وقت پر تیار کرنے کو ترجیح دے گا کیونکہ بھارتی فضائیہ کو جدید اور مضبوط بنانے کا مستقبل صرف جیٹ طیارے کی خریداری پر انحصار کرنا نہیں بلکہ ان کی تعمیر پر منحصر ہے۔ دو ہفتے قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے واشنگٹن میں ملاقات کے بعد امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ بھارت امریکہ سے دفاعی سودے کے تحت جنگی ساز و سامان خریدے گا اور امریکہ بھارت کو اپنے جدید ترین جنگی طیارے ’ایف-35‘ بھی فروخت کرے گا۔صدر ٹرمپ کی جانب سے دیے گئے اس بیان کو انڈین میڈیا میں امریکہ، بھارت دفاعی تعلقات میں ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کیا گیا لیکن اپوزیشن اور کئی دفاعی ماہرین نے صدر ٹرمپ کی ایف 35 طیاروں کی پیشکش کو امریکہ کی جانب سے دباو¿ قرار دیتے ہوئے بھارتی فضائیہ کےلئے اس جنگی طیارے کی افادیت کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں ۔ یاد رہے کہ مودی کے دورہ امریکہ سے قبل بھارت کی جانب سے اس طیارے کی خریداری کےلئے کوئی خواہش ظاہر نہیں کی گئی تھی اور دفاعی ماہرین کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے کی گئی یہ پیشکش بظاہر یکطرفہ ہے ۔ یہ پیشکش براہ راست امریکہ کے صدر کی طرف سے آئی ہے اور کئی تجزیہ کاروں نے صدر ٹرمپ کے لب و لہجے سے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ جیسے وہ یہ کہہ رہے ہوں کہ ’بھارت کو یہ طیارہ خریدنا ہی ہو گا۔‘’ایف 35‘ دنیا کا سب سے مہنگا جنگی طیارہ ہے جس کی قیمت تقریباً 80 ملین ڈالرز سے 110 ملین ڈالرز تک ہوتی ہے ۔صدر ٹرمپ کے ایف 35 طیارے بھارت کو دینے سے متعلق بیان کے سامنے آنے کے بعد بھارتی سوشل میڈیا پر ٹرمپ کے مشیر اور قریبی ساتھی ایلون مسک کا ایک پرانا ٹویٹ بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’بعض بیوقوف اب بھی ایف-35 جیسے پائلٹ کے ذریعے پرواز کرنے والے فائٹر جیٹ بنا رہے ہیں۔‘ ’کچھ امریکی جنگی ہتھیار اچھے ہیں لیکن وہ بہت مہنگے ہیں۔ برائے مہربانی تاریخ کے حد سے زیادہ مہنگے اس ایف 35 کے پروگرام کو بند کیجیے۔‘بھارت میں بھی اس متعلق بہت سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ حزب اختلاف کانگریس کے رہنما رندیپ سنگھ سورجے والا نے مودی حکومت سے ایف 35 کی خریداری کے حوالے سے کئی سوالات کیے ہیں۔ کیا ایف 35 طیاروں کی خریداری کے بارے میں بھارتی فضائیہ سے کوئی رائے لی گئی ہے؟ انھوں نے مزید کہا کہ کیا وزیر اعظم مودی کو یہ نہیں بتایا گیا کہ صدر ٹرمپ کے سب سے سیینئر وزیر ایلون مسک اس جنگی طیارے کو ’کباڑ‘ قرار دے چکے ہیں؟ انھوں نے وزیراعظم مودی سے یہ بھی جاننا چاہا کہ کیا انھیں پتہ ہے کہ ایف 35 دنیا کا سب سے مہنگا طیارہ ہے اور ایک طیارے کی قیمت تقریباً 110 ملین ڈالر ہے؟ایف 35 طیارے بنانے والی کمپنی ’لاکہیڈ مارٹن‘ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’بھارت کو ایف 35 فروخت کرنے کے بارے میں صدر ٹرمپ کے حالیہ اعلان پر ہمیں خوشی ہے۔ لاکہیڈ مارٹن دونوں حکومتوں کے فیصلے پر عملدرآمد کےلئے پوری طرح تیار ہے۔‘ ایف 35 طیارے کے تین ورژن ہیں۔ اے، بی اور سی۔ ایف 35 (اے) روایتی لینڈ نگ اور ٹیک آف کی صلاحیت والا طیارہ ہے اور زیادہ امکان ہے کہ خریداری کی صورت میں بھارت کی توجہ اسی ساخت یا ورژن پر مرکوز ہو گی۔اب تک 19 ممالک نے اس فائٹر طیارے کو امریکہ سے خریدا ہے یا خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ اس ممالک میں بیشتر نیٹو کے یورپی اتحادی ممالک یا اسرائیل، جنوبی کوریا، جاپان اور آسٹریلیا جیسے پارٹنر ممالک شامل ہیں۔