بھارت میں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے وقف ترمیمی بل کو محض 14 ترامیم کے ساتھ منظور کر لیا ہے۔ جے پی سی کے چیئرمین جگدمبیکا پال نے کہا کہ بل میں 572 ترامیم کی تجاویز پیش کی گئیں جن میں سے 44 ترامیم پر بحث ہوئی اور اکثریت کی بنیاد پر کمیٹی نے این ڈی اے اراکین کی 14 ترامیم کو منظور کیا۔ اپوزیشن ارکان کی تمام مجوزہ ترامیم کو ووٹنگ کے دوران 10 کے مقابلے میں 16 ووٹوں سے مسترد کر دیا گیا۔ جے پی سی چیئرمین پال اب فائنل ڈرافٹ کی منظوری کے بعد لوک سبھا اسپیکر سے ترمیم شدہ بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی درخواست کریں گے۔مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں منظور کردہ بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں (این ڈی اے) کی 14 ترامیم کو اپوزیشن، مسلم پرسنل لا بورڈ اور ملی تنظیموں نے یکسر مسترد کر دیا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے زیر اہتمام جنتر منتر پر وقف ترمیمی بل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، جس میں مختلف مسلم تنظیموں، سیاسی رہنماو¿ں اور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے خطاب میں وقف ایکٹ میں مجوزہ ترمیم کو آئین کے بنیادی اصولوں پر حملہ قراردیتے ہوئے کہا، ”یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ اگر آج ہم خاموش رہے تو کل کسی بھی اقلیتی یا کمزور طبقے کے حقوق سلب کیے جا سکتے ہیں۔“مولانا مدنی نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ وقف جائیدادوں پر قبضے کی راہ ہموار کرنا چاہتی ہے۔ہمارے گھروں، مسجدوں اور مدرسوں پر پہلے ہی بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں اور اب آئین پر بھی بلڈوزر چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمیں ہر حال میں اس ترمیم کی مخالفت کرنی ہوگی۔یہ ملک تمام مذاہب کے ماننے والوں کا ہے لیکن آج مخصوص طبقے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہم ہر ممکن طریقے سے اس ناانصافی کے خلاف لڑیں گے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نمائندوں نے اعلان کیا کہ اگر حکومت نے اس بل کو واپس نہ لیا تو ملک گیر احتجاج کیا جائے گا۔ہم آئینی حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور اگر ہماری مانگیں پوری نہ ہوئیں تو احتجاج کا دائرہ مزید وسیع کیا جائے گا۔جبکہ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اور وقف جے پی سی کے صدر جگدمبیکا پال نے اس احتجاج کو سیاسی قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت وقف ایکٹ میں ترمیم کر کے غریب مسلمانوں کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”یہ ترمیم صرف منظم وقف جائیدادوں کے بہتر انتظام کےلئے ہے لیکن کچھ لوگ اسے سیاسی رنگ دے رہے ہیں۔“آئیے دیکھتے ہیں کہ جے پی سی نے وہ کون سی ترامیم کی ہیں جنہیں مسلم تنظمیں خانہ پوری قرار دیتے ہوئے جگدمبیکا پال کے فیصلے کو تاناشاہی اور ظلم سے تعبیر کر رہی ہیں۔اب کلیکٹر نہیں سرکاری افسر فیصلہ کرے گا کہ کوئی جائیداد وقف ہے یا نہیں، پہلے اس بات کا تعین کرنے کا حق ضلع کلکٹر کو دیا گیا تھا۔ لیکن جے پی سی نے اس میں تبدیلی کی سفارش کی ہے۔ اب کلکٹر کے بجائے ریاستی حکومت کی طرف سے نامزد کردہ افسر فیصلہ کرے گا۔ جے پی سی کے چیئرمین نے کہا کہ ریاستی حکومت نوٹیفکیشن کے ذریعے کلکٹر کے عہدے سے اوپر کے افسر کو قانون کے مطابق انکوائری کرنے کے لیے نامزد کر سکتی ہے۔” ایک طرح سے دیکھا جائے تو دونوں ایک ہی بات ہوئی۔ کلکٹر بھی حکومت کے ماتحت افسر ہوتا ہے اور اب نامزد سینئر افسر بھی حکومت کا ہی نمائندہ ہوگا۔ یہ تو بس ہاتھ گھما کر کان پکڑنے والی بات ہوئی۔مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں منظور کی گئی ترامیم میں ایک ترمیم یہ ہے کہ زمین پر دعویٰ کرنے والا شخص ٹریبونل کے علاوہ ریونیو کورٹ، سول کورٹ یا ہائی کورٹ میں بھی اپیل کر سکے گا۔ جب کہ وقف بورڈ کے پرانے قانون کے مطابق اگر وقف بورڈ کسی جائیداد کا دعویٰ کرتا ہے تو فریق مخالف اور دعویٰ کرنے والا شخص صرف ٹریبونل میں اپیل کر سکتا تھا۔ اب وقف ٹریبونل کے فیصلے کیخلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی جا سکے گی۔ جبکہ پہلے کے قانون میں وقف ٹریبونل کا فیصلہ حتمی سمجھا جاتا تھا، اسے چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ حالانکہ پال نے اس ترمیم کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اگر وقف کا متولی جائیداد بیچ رہا ہے یا بے ضابطگیوں کا ارتکاب کر رہا ہے تو اب وقف کے ٹربیونل کے حکم کے خلاف سینئر عدالتوں میں اپیل کی جا سکتی ہے۔جے پی سی کے چیئرمین جگدمبیکا پال نے ایک بیان میں کہا کہ وقف ٹریبونل میں اب دو کے بجائے تین ممبران ہوں گے۔ تیسرا اسلامی سکالر ہوگا۔ اس سے پہلے ترمیمی بل میں ٹربیونل میں دو ارکان کی گنجائش تھی۔ حالانکہ نئی ترمیم میں ٹریبونل کے اختیارات کو کم کرتے ہوئے اس کے فیصلوں کو دیگر عدالتوں میں چیلنج کرنے کا آپشن بھی کھول دیا گیا ہے۔نیا قانون پہلے کی رجسٹرڈ وقف املاک پر لاگو نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو وقف جائیدادیں رجسٹرڈ ہیں وہ متاثر نہیں ہوں گی لیکن جو رجسٹرڈ نہیں ہیں، ان کے مستقبل کا فیصلہ بل میں طے شدہ معیارات کے مطابق کیا جائے گا۔جب تک کسی نے وقف کو زمین عطیہ نہ کی ہو۔ اگر اس پر مسجد بھی بنائی جائے تو وہ وقف کی ملکیت نہیں ہوگی۔ اس سے پہلے کے قانون کے مطابق یہ تھا کہ اگر کسی زمین پر مسجد ہو یا اسے اسلامی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے تو وہ خود بخود وقف کی ملکیت بن جاتی ہے۔