14 اگست 1947 کو بھارت کی آزادی کا اعلان ہوا تو سب سے پہلے پاکستان نے اسکا خیر مقدم کیا مقصد باہمی بھائی چارے کیساتھ خطہ کو غلامی کے بعد آگے بڑھانا تھا ، مگر بھارتی ہندو توا کےزیر اثر ہندو نیتاوں نے ہمیشہ پاکستان اوف مسلم مخالف اشتعال انگیز اقدامات اٹھائے ٹھیک ایک سال بعد کشمیر پر جنگ مسلط کی جس میں اسے منہ کی کھانا پڑی، ہندوستانی قوم 26جنوری کو ہر سال 1951سے یوم جمہوریہ کے طور پر مناتی ہے کیونکہ 26جنوری 1950 کو بھارت کا آئین بنایا گیا جس کی رو سے بھارت کو جمہوریہ بھارت کا درجہ دیا گیا تھا۔ اس دن کی مناسبت سے جہاں ایک طرف سارے بھارت میں خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ثابت کرنے کیلئے مختلف تقاریب کاا نعقاد کرتے ہوئے جمہوریت کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے تو وہاں دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں 9 لاکھ کے لگ بھگ فوجی اور نیم فوجی دستوں کی بندوقوں اور ٹینکوں کے سائے تلے خطہ کشمیر کو متحدہ بھارت کا حصہ قرار دینے کے لئے تقریب منعقد کی جاتی ہے جب کہ اس موقع پر آل پارٹیز حریت کانفر نس مقبوضہ کشمیر کی کال پر مقبوضہ و آزاد کشمیر کے علاوہ پاکستان اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری بھارت کے یوم جمہوریہ کو "یوم سیاہ”کے طورمناتے ہیں آزادکشمیر حکومت ہرسال اہتمام کیساتھ براس دن یوم سیاہ مناتی ہے،کشمیر لبریشن سیل مظفرآباد سمیت جملہ اضلاع اور اسلام آباد میں حریت کانفرنس کی قیادت کے ہمراہ احتجاجی پروگرام منعقد کرکے دنیا کی توجہ78 سال سے اس اہم مسئلے کی جانب مبذول کرواتا ہے۔ تحریک آزادی کشمیر اور خطے کی جیو پولیٹیکل، جیو اسٹریٹیجک صورت حال سے واقفیت نہ رکھنے والے بعض لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ کشمیری عوام بھارت کے یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کیوں مناتے ہیں اور انہیں بھارتی جمہوریت پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔تو اس پر عرض یہ ہے کہ کشمیر ی عوام کو بھارت کے جمہوری ملک ہونے پر کبھی اعتراض ہے اور نہ ہی کوئی خاص دلچسپی لیکن بھارتی جمہوریت اور سیکولر ازم کے تمام تر دعوے حقیقت سے کوسوں دور ہیں۔ کیونکہ بھارت میں سرعام جمہوری اقدار کی پامالی کرتے ہوئے سکھوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے حقوق کو سرعام غصب کیا جاتا ہے بلکہ نیچ ذات کے ہندو بھی استحصالی طبقہ کی چیرہ دستیوں سے کسی بھی طرح محفوظ نہیں ہیں۔ دوم یہ کہ انتہا پسند بھارتی حکومت کی ایما پر اقلیتوں پر بدترین مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔آج بھی خود کو سیکولر کہنے والے بھارت میں کسی بھی اعتبار سے مذہبی آزادی کا نام و نشان تک نہیں۔ مسجدوں اور دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانامعمول ہے۔ مسلمانوں پر آج بھی وہاں طر ح طر ح کی پابندیاں عائد ہیں۔گائے کے گوشت کو ایکسپورٹ تو کیا جاتا ہے مگر مسلمان ہرگز ذبح نہیں سوم یہ کہ بھارت میں بنائے جانے والے قوانین میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے حقوق کا بالکل ہی خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ جیسے قوانین کو انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کالے قانون سے موسوم کیا ہے جس کی آڑ میں کشمیریوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔چہارم یہ کہ 27اکتوبر 1947 کی صبح 9بجے مہاراجہ کشمیر کی طرف سے الحاق کی دستاویز پر دستخط سے قبل بھارت نے ریاست جموں و کشمیر کے ایک بڑے حصہ پر فوجی قبضہ جما کر جبری تسلط قائم کر کہ کشمیری عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔کشمیر پر بھارتی قبضہ کے ضمن میں بھارتی حکمرانوں کے دعوے اور قصے کہانیاں اپنی جگہ مگر تاریخی اور زمینی حقائق ان دعوں کے بر عکس اور بھارتی جھوٹ کی قلعی کھولنے کیلئے کافی ہیں۔کیا یہ سچ نہیں کہ کشمیر میں اپنی فوجیں داخل کرنے کے بعد کشمیریوں کی طرف سے سخت ترین مزاحمت اورپاکستان کی طرف سے مدد کے خطرات کے پیش نظر از خود بھارت سیاسی حکمت عملی کے تحت کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے گیا؟ کیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے اور اقوام متحدہ کے کمیشن فار انڈیا اینڈ پاکستان کی طر ف سے منظور ہونے والی قراردادوں کو بھارت نے تسلیم نہیں کر رکھا ہے؟ کیا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو”حق رائے دہی "حاصل نہیں ہے؟ کیا بھارت نے کشمیری عوام،پاکستان اور ساری دنیا سے یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ مسئلہ کشمیر،کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کیا جائے گا؟کشمیر پر بھارتی قبضہ کے ضمن میں بھارتی حکمرانوں کے دعوے اور قصے کہانیاں اپنی جگہ مگر تاریخی اور زمینی حقائق ان دعوں کے بر عکس اور بھارتی جھوٹ کی قلعی کھولنے کیلئے کافی ہیں۔کیا یہ سچ نہیں کہ کشمیر میں اپنی فوجیں داخل کرنے کے بعد کشمیریوں کی طرف سے سخت ترین مزاحمت اورپاکستان کی طرف سے مدد کے خطرات کے پیش نظر از خود بھارت سیاسی حکمت عملی کے تحت کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے گیا؟ کیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے اور اقوام متحدہ کے کمیشن فار انڈیا اینڈ پاکستان کی طر ف سے منظور ہونے والی قراردادوں کو بھارت نے تسلیم نہیں کر رکھا ہے؟ کیا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو”حق رائے دہی "حاصل نہیں ہے؟ کیا بھارت نے کشمیری عوام،پاکستان اور ساری دنیا سے یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ مسئلہ کشمیر ، کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کیا جائے گا؟تما م تر اختلافات اور حقائق اپنی جگہ مگر بھارتی سیاستدانوں کو داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے بین الاقوامی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونک کر جمہوری سفر کو کامیابی اورکامرانی سے جاری وساری رکھا ہوا ہے۔ بھارت میں بسنے والی اقلیتی قومیتوں کے ساتھ تما م تر زیادتیوں اور نا انصافیوں اور زیر قبضہ دیگر ریاستی عوام کے ساتھ ظلم و جبر اور قتل عام جیسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہونے کے باوجود قومی وسائل کے استعمال میں کسی قسم کی بد دیانتی کے مرتکب نہیں ہوئے اور نہ ہی قومی مفاد کے خلاف کوئی کام کیا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی جر نیلوں اور دیگر سیکورٹی کے اداروں کو ملکی نظام کو ہاتھ میں لینے کی کبھی جرات نہ ہو سکی۔ اس طرح تما م ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے قومی مفاد کے لئے دل و جان سے کوشاں ہیں۔حالانکہ رقبہ کے اعتبار سے کشمیر کے بر ابر کسی بھی خطے میں آٹھ سے 9 لاکھ فوجی دستوں کی موجودگی کے کسی کونے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔کسی خطے میں اگر اتنی تعداد میں فوج موجود ہو بھی اور بھارتی دعوے کے مطابق فر ض کیا یہ مان لیا جائے کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے تو بھارتی فوج اس اعتبار سے دنیا کی واحد فوج ہے جو سرحدوں کے بجائے اپنے ہی ملک کے عوام کو بندوق اور ٹینکوں کی گولیوں سے فتح کرنے میں مصروف ہے۔ان درست اور تصدیق شدہ معلومات اور حقائق کی روشنی میں اب معترضین کے اشکالات اور اعتراض دور ہوگیا ہوگا کہ کشمیری کیوں بھارت کے یوم جمہوریہ پر اسے یوم سیاہ مناتے ہیں ،یہ بات خود بھارت کے صلح جو اور منصف مزاج شخصیات بھی کئی بار کر چکے کہ کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے پھر اسکا فیصلہ بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا طے ہے تو پھر کیوں بھارت کے نیتا جموں وکشمیر کے پونے دو کروڑ انسانوں کو جمہوری حق سے محروم کررہی ہے ،سیکولر اسٹیٹ کے دعویدار بھارتی حکمرانوں اور اسکی اسٹیبلشمنٹ نے بھارت کا چہرہ خود دنیا کے سامنے ننگا کردیا ہے۔