کالم

سراج الحق کی کاوشیں کارآمد ثابت ہوئیں

riaz chu

پاکستان تحریک انصاف کی دیگر سیاسی جماعتوں سے امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق کے روابط میں اہم ترین پیش رفت سامنے آئی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں دونوں فریقین نے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے۔وطن عزیز کے موجودہ معاشی اور سیاسی بحران کے حل کےلئے امیر جماعت اسلامی حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ قبل ازیں انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی اور پھر عمران خان سے ملاقات کرکے انہیں حکومت سے مذاکرات کی تجویز دی ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے واضح کیا کہ عمران خان سے مذاکرات آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کیے جائیں گے جبکہ عمران خان نے بھی مذاکرات کی پیش کش پر مثبت جواب دیا۔امیرجماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ ملک میں الیکشن ایک ہی وقت پر موضوع ہیں۔ سیاسی صورت حال کو سیاسی طریقے سے ہی مل بیٹھ کر حل کرنا ہوگا کیونکہ پاکستان کسی غیر یقینی صورت حال کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ جماعت اسلامی کی جانب سے انتخابات کے انعقاد کے لیے وسیع اتفاقِ رائے کےلئے کمیٹی کی تشکیل کی تجویز دی گئی۔اس تجویز کا خیرمقدم کرتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا کہ تحریک انصاف آئین کے دائرہ و حدود کے اندر بات چیت کیلئے تیار ہے۔ اس سے پہلے کہ بحران حل نہ ہونے کی سٹیج پر پہنچ جائے یا کوئی میرے عزیز ہم وطنو کہنے والا آجائے، سیاست دان مل بیٹھیں اور پورے ملک میں انتخابات کی ایک تاریخ پر متفق ہوجائیں۔ پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی بھی قربانی دے۔ قومی اور دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرے۔ہم چاہتے ہیں عدالت، اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن غیر جانبدار ہوجائیں ۔ سیاستدانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو حالات اس نہج تک پہنچ جائیں گے جہاں کسی کے ہاتھ میں کچھ نہیں آئے گا۔ یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں اور سیاست چلتی رہے گی۔ جناب امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ یہی حکمران ملک کو دولخت کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ انھوں نے ہی معیشت تباہ کی۔ آج روپیہ کی قدر محض کاغذ کے ٹکڑے جتنی رہ گئی ہے۔ پاکستان کو دشمن کے بموں سے زیادہ آستین کے سانپوں سے خطرہ ہے۔ آئین کی گولڈن جوبلی تقریبات ہو رہی ہیں، پارلیمنٹ میں بڑے بڑے خطابات ہوئے، ایک دوسرے کو مبارک بادیں دی گئیں، مگر ایٹمی اسلامی پاکستان کے غریب آٹے کی لائنوں میں مر رہے ہیں۔ عدلیہ اور پارلیمنٹ دست و گریبان ہیں۔ حکمران جماعتوں میں جنگ ہے اور تقریباً سبھی قومی ادارے متنازعہ ہو چکے ہیں۔پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلیوں کے 90 دن کی آئینی میعاد کے اندر انتخابات ہی وہ ایشو ہے جس پر ملک کی سیاست اور اعلیٰ عدالتی ایوانوں میں ہلچل مچی ہے۔ اس سے ملک میں بھی انارکی اور خانہ جنگی جیسے حالات پیدا ہوتے نظر آئے اور ریاستی آئینی ادارے بھی اس ہلچل سے محفوظ نہ رہ سکے اور عملاً ایک دوسرے کے مدمقابل آ گئے جبکہ اس کیس کے حوالے سے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ازخود اختیارات کے استعمال کا بھی سوال اٹھا ۔آئین پاکستان میں تو ریاستی انتظامی اداروں کے اختیارات اور انکی حدود و قیود متعین ہیں۔ اگر تمام ادارے اپنی حدود و قیود میں رہ کر فرائض منصبی ادا کریں تو سسٹم کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ادارہ جاتی ٹکراﺅ کی کوئی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا ماضی بھی اس معاملہ میں بری مثالیں قائم کر چکا ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین اپنی اپنی مفاداتی سیاست اور اقتدار میں شیرینی حاصل کرنے کیلئے ماورائے آئین اقدام کی راہ ہموار کرتے اور اس کیلئے جرنیلی آمروں کو اپنے کندھے پیش کرتے رہے جبکہ ہماری عدلیہ نے نظریہ ضرورت ایجاد کرکے ماورائے آئین اقدامات کو آئینی اور عدالتی تحفظ دینے کے راستے نکالے۔ چنانچہ اس وطن عزیز کے تقریباً 35 سال جرنیلی آمریتوں کی نذر ہو گئے اور بدقسمتی سے ہماری قومی سیاسی قیادتوں نے ابھی تک اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا۔شرافیہ اقتدار کے حصول کے لیے باہم دست و گریباں ہے۔ معیشت روبہ زوال، پاکستان کو ڈِفالٹ کے خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود زراعت تباہی سے دو چار ہے۔ صنعتیں بند ہو چکی ہیں۔ غریب عوام کے لیے روٹی کا حصول ناممکن ہو گیا ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل حکمران اپنے کیسز معاف کرانے میں لگے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں کھوکھلے نعروں اور دعووں کے ذریعے ایک دوسرے سے اقتدار چھیننے کیلئے کوشاں ہیں ۔ ملک قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف مزید قرضوں کے لیے ہمارے کشکول کو دیکھتے ہوئے اپنی مرضی کی شرائط پر قرضے دے کر پاکستانی عوام کی غیرت و حمیت کا جنازہ نکالنے پر تلی ہوا ہے۔وطن عزیز اور ہماری اسلامی ریاست قیام پاکستان کے مقاصدکھو رہی ہے۔ آزادی کی حفاظت، استحکام اور خوشحالی کے لئے پوری قوم کی متحدہ جدوجہد ناگزیر ہے تا کہ بگڑتے حالات، بکھرتا شیرازہ، دو قومی اسلامیہ نظریہ کی بنیاد پرازسرنومتحرک کیا جائے۔ قومی آمریتوں، اسٹیبلشمنٹ، ریاستی، سیاسی انتخابی بندوبست اور اقتدار پرستی میں پاپولر نمائشی قیادت نے پاکستان کے وجود کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ ہوس، اقتدار اور اپنے اپنے مفادات کے تحفظ، اختیارات کے غیرقانونی استعمال کے عمل نے ریاستی سرکاری سیاسی انتخابی پارلیمانی اداروں کو تباہ کر دیا ہے اور قومی سلامتی آزاد مختاری پرکمپرومائز کیا ہے ۔ موجودہ کٹھن آئینی ، عدالتی اور سیاسی معاملات سے ریاستی آئینی اداروں کے تقدس اور احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عہدہ براءہونے کے لئے بہرصورت تمام فریقین کے مابین افہام و تفہیم ضروری ہے بصورت دیگر ہماری اندرونی کمزوریاں اور انتشار و خلفشار کی کیفیت ہمارے اندرونی و بیرونی دشمنوں کو پاکستان کی سلامتی اور جمہوری نظام کو تاراج کرنے کی سازشوں کی تکمیل کےلئے انتہائی نرم چارہ فراہم کر رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے